آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟

جمعرات 24 اکتوبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

میں ایک طالب علم ہوں ۔میں چاہتا ہوں ہوں کہ میں پورا سال کمرہ جماعت میں عیاشی سے گزاروں اور جب امتحان آئے تو بغیر تیاری کے نقل یا سفارش کی بنیاد پر پوزیشن حاصل کروں،لیکن میں بطور طالب علم یہ سمجھتا ہوں کہ تمام حکومتی محکمے کرپٹ ہیں اور ملک کو برباد کر رہے ہیں۔ میں ایک استا د ہوں ،میں چاہتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ چھٹیاں کروں ۔

اگر سکول جاؤں بھی توپڑھانے کی بجائے ساتھی اساتذہ سے گپیں ہانکوں ،ایک پیالہ چائے کا پیوں اور دو، ایک عدد سگریٹ کی ڈبی ختم کرکے سکول ،کالج یا یونیورسٹی سے واپس گھر آجاؤں اور مہینہ کے اختتام پر تنخوا بھی مجھے بروقت ملنی چاہیے ،اگر مجھے تنخوا بروقت نہیں ملتی یا پیڈا ایکٹ بن جاتا ہے تو یہ میرا ساتھ نہیں بلکہ اساتذہ کے مقدس پیشے کے ساتھ ظلم ہے۔

(جاری ہے)

میں ایک واپڈا ملازم ہوں ۔میں روز صبح 10بجے دفتر جاتا ہوں ۔قلیل تنخوا کے باوجود بھی میرے اور میرے رشتہ داروں کے گھر میں گرمیوں میں دن رات دو ،دو اے سی اور سردیوں میں ہر کمرے میں دن رات ہیٹر وگیزر چلتے ہیں ،لیکن میں بہت ایماندار ہوں اور باقی سارے محکمے ملک وقوم کو برباد کررہے ہیں۔میں ایک پولیس ملازم ہوں ،میں سفارش کرواکے کسی تھانے میں منشی یا ایس ایچ او لگ جاتا ہوں،میں اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں پیسوں کے حصول کے لیے مدعی اور ملزموں سے بدتمیزی کرتا ہوں،سائل کویہ کہہ کر باربار تھانے کے چکر لگواتا ہوں کہ "میں ابھی مصروف ہوں ،تم کل آجانا" ۔

میں اپنی دہشت قائم کرنے اور رشوت کے حصول کے لیے حوالاتیوں کو رات کے وقت باہر نکال کر ان پر تشدد کرتا ہوں،اس کے باوجود اگر کبھی میں معطل یا ڈس مس ہو جاؤں تو میں بہت مایوس ہوجاتا ہوں اور مجھے سارا طبقہ ہی ظالم نظر آتا ہے۔میں ایک ڈاکٹر ہوں اور پوری زندگی محنت کرنے کے بعد ایک اعلیٰ ادارے سے سند لے کر عملی زندگی میں آتے ہی میں مریضوں کی زندگیوں تک سے کھیلنے لگ جاتا ہوں۔

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میرامریض میری کمیشن والی دوائی ،اپنی کونسی شے بیچ کر خریدتا ہے۔مجھے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میرا مریض کس تکلیف میں ہے اور مرنے کے قریب ہے ،لیکن چونکہ میرا ڈیوٹی ٹائم ختم ہو چکا ہے اس لیے مجھے اُس مریض کے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔میں ایک صحافی ہوں ،میں ریٹنگ حاصل کرنے لیے سچے جھوٹے پروگرام کرتا ہوں ،میں لوگوں کی عزتوں کو اچھالتا ہوں ،لوگوں پر تہمتیں لگاتاہوں،سرکاری اہلکاروں کو بلیک میلنگ کرتا ہوں لیکن اگر کسی دفتر میں میرا کوئی کام رُک جائے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھ پر ظلم ہو رہا ہے اور یہ آزادی صحافت پر بھی حملہ ہے۔

میں ایک دودھ فروش ہوں ،میں روز 20کلو دودھ میں پانی ملا کر اسے بڑھاتا ہوں اور مہنگے داموں اُسے بیچتا ہوں ،لیکن جب ناکے پر کوئی پولیس اہلکار مجھ سے 200روپے مانگتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ مجھ پر ظلم ہو رہا ہے۔اگرمیں قصاب ہوں تو بھی بے ایمانی میرا شیوہ ہے ،اگر میں حجام (نائی)ہوں تو بھی بے ایمانی میرہ شیوہ ہے۔اگر میں ریڑھی والا ہوں تو بھی بے ایمانی میرا شیوہ ہے۔


معاشرے میں رہتے ہوئے بے ایمانی کرتے وقت ہر شخص کے پاس دلیل موجود ہے۔اگر کوئی چور،ڈکیت پکڑا جائے تو اس کے پاس بھی وجہ موجود ہے۔اگر کوئی ریڑھی بان یا کوئی راشی انسان بھی پکڑا جائے تو اس کے پاس بھی دلائل کا انبار ہوتا ہے۔ہماری آزادی کو 70سال سے زائد ہو چکے ہیں ۔آج ہم کشمیر کو آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ہم حج اور عمرہ کے لیے ہر سال جانا چاہتے ہیں۔

ہم ہر سال اخلاقیات کو اجاگر کرنے لیے کروڑوں روپے کی کانفرنسیں اور سیمنا کرواتے ہیں۔مولویوں اور مدارس کو انتشار کا سبب قرار دیتے ہیں۔آج ہمارا سب سے پسندیدہ مشغلہ سیاست پر گفتگو کرنا ہے ۔گدھا ریڑھی چلانے والے سے لے کر آفس میں بیٹھے ہمارے بابوں کے پاس بھی صرف ایک ہی کام باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے سیاست ۔جھوٹ کو نیانام یو ٹرن کا دے دیا گیا ہے۔

ہمارے معاشرے کا ہر فرد افلاطون بنا ہوا ہے۔ہر قومی تہوار کے موقع پر اپنی نوجوان نسل کی طرف سے بدتمیزی کا جو طوفان ہمیں اپنی شاہراؤں پر نظر آتا ہے وہ بھی ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے۔ آزادی سے قبل تو ہمیں لوٹنے والے انگریز اور ہندو بنیا تھے لیکن اُن کے جانے جے بعد بھی آج تک ہم نے کبھی اُن کی کمی اپنی قوم کو محسوس نہیں ہونی دی۔ہم آج بھی خود کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں۔

ہماری مثال بھی ان دنوں اس انسان کی سی ہے جو درخت کی شاخ پر بیٹھ کر اسی شاخ کو ہی کاٹنے میں محو ہے۔کھوکھلے نعرو ں اور کشمیر کے مسئلہ پر آج بھی ہماری گھٹیاسیاست جاری ہے۔ہمارے معاشرے میں انسان کی قیمت آج چند روپے رہ گئی ہے۔ہماری عدالتیں،ہمارے سکول،ہمارے مدارس ،ہمارے اسپتال،ہماری پولیس ،ہماری افواج،ہمارے تاجر،ہمارے سیاستدان،ہمارے اساتذہ،ہمارے صحافی،ہمارے وکیل،ہمارے بیوروکریٹ،ہمارے سائنسدان،ہمارے ادیب آج جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔

ہم لوگ سستی ،غفلت ،لاپراوہی کی انتہا پر پہنچ چکے ہیں ۔جھوٹ بولنا ہماری قومی و ملکی پہچان بن چکا ہے ۔ہم آج بھی اپنے اوپر بھروسہ کرنے کی بجائے امداد غیبی کے انتظار میں بیٹھ گئے ہیں،ہم آج بھی خضر کی تلاش میں بیٹھے ہیں اور اپنے اعمال درست کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر نکتہ چینی میں مصروف ہیں۔ہمیں آج سے ہی اپنامحاسبہ کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے بارے میں سوچنا ہوگا ۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟۔بصورت دیگر ہم ہمیشہ گنگناتے رہیں گیں۔
نا حق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ، ہم کو عبث بدنام کیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :