اٹھیےغریب شہر کا لا شہ اٹھائیے

جمعرات 24 جنوری 2019

Ahmed Khan

احمد خان

واقعہ ساہیوال کے بعد ملک کی فضا سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے ، سب سے پہلا سوال جو ذہنو ں میں کلبلا تا ہے وہ یہ کہ کیا قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ادا رے قانون سے با لاتر ہیں ، کم از کم سا ہیوال واقعہ میں گھوم پھر کر ذہن کی سوئی یہی آکر اٹکتی ہے ، ساہیوال میں جو کچھ ہوا ،پاکستانی سماج میں رونما ہو نے والا یہ پہلا واقعہ نہیں جس سے ہماری بہادر پو لیس کے ہاتھ خون سے رنگین ہو ئے ، چھو ٹے میاں صاحب کے عہد میں تو جعلی مقابلوں میں ” آر پار “ کو خوب شہرت ملی ، اسی ضمن میں آپ عابد باکسر نامی پو لیس اہل کار کے ” فر مودات “ سن چکے ہیں یہ تو بھلا ہو سماجی میل جو ل کے رابطوں اور جلتی بلتی نجی ٹی وی خبری چینلز کا کہ جنہوں نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مر نے والوں کے لیے صدا ئے احتجاج بلند کی ۔

(جاری ہے)

ساہیوال واقعہ پر اتنی ہا ہا کار کیوں مچی ، وجہ اس کی بہت سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہے ، سی ٹی ڈی کی کا رروائی نے بہت سے سوالا ت کو جنم دیا ہے ، جیسے ہی قصہ جنگل کی آگ کی طر ح پھیلا ، بعد اس کے سی ٹی ڈی پو لیس نے درجنوں بار اپنا مو قف بد لا ، سب سے پہلے اس سارے معاملے کو مشکوک سی ٹی ڈی کے بار بار بد لتے مو قف بنا یا ، جیسے جیسے عوامی دباؤ میں اضافہ ہو تا گیا سی ٹی ڈی کے مو قف میں بھی تبدیلی آتی رہی ، سی ٹی ڈی کے اس بچگانا طر ز عمل نے شکوک و شبہات کو جلا بخشی ساتھ ہی مر نے والوں کی بے گنا ہی پر گو یا مہر بھی ثبت کر دی ، اس واقعہ کے جو شواہد سامنے آئے ان شواہد نے معاملے کو مزید گنجلک بنا یا ، مر نے والے چلے گئے مگر درد دل رکھنے والوں کے لیے کئی سوال چھو ڑ گئے ، کیا سی ٹی ڈی کی گولیوں کی نشانہ بننے والی اریبہ دہشت گر د تھی ؟ ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ سی ٹی ڈی نے مقتول خاندان کی گاڑی روکنے کی بجا ئے اس پر گو لیوں کی بوچھاڑ کیو ں کی ؟ کیا سی ٹی ڈی اہل کاروں نے جائے وقوعہ سے شواہد محفوظ کیے تھے ؟
 کیا ارفع مقصد کا ر سواروں کی جان لینا تھا ؟ کیا کار میں مو جود کم سن بچے بھی دہشت گر د تھے ؟ کم سن بچے اگر دہشت گر د نہیں تھے پھر ا ن کا خیال کا رروائی کر تے وقت کیو ں نہیں رکھا گیا ؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب سی ٹی ڈی کے پاس نہ اس وقت تھے اور نہ اب ہیں ، لمحہ مو جود تک جو شواہد اور معلومات منظر عام پر آچکیں ، ان شواہد کا سیدھا سیدھا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ کار سوار خاندان بے گنا ہ تھا ، ایک سوال جو ہر پاکستانی شہر ی کے لبوں پر مسلسل رقصاں ہے وہ یہ کہ کیا ساہیوال واقعہ کے ذمہ داروں کو جلد از جلد قرار واقعی سزا مل سکے گی ، شکو ک و شبہات اور اندیشوں کا سل رواں ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس حوالے سے ہمارا ماضی کچھ ایسا شاندار اور جان دار نہیں ، آپ کو امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس یا د ہے ، جی وہی ریمنڈ ڈیوس جس نے سرعام پاکستانی شہر یوں کو خون میں لت پت کیا تھامگر تمام تر احتجاج کے با وجود ہمارے محب وطن حکمرانوں نے اسے واپس اپنے ملک بھیج دیا تھا، سانحہ ماڈل ٹاؤن تو آپ ابھی تک نہیں بھولے ، طویل ہاہا کار کے باوجود مگر سانحہ ماڈل ٹا ؤن میں ادنی سے ادنی ذمہ دار کو آج تک سزا نہیں ہو ئی ، راؤ انوار کراچی میں جو بر بریت کا بے تاج بادشاہ تھا، موصوف مگر ابھی تک قوم اور مقتولین کے سینوں پر مونگ دل رہا ہے ۔

سوال بڑا سا دہ سا ہے اگرواقعہ ساہیوا ل سے ملتے جلتے سابقہ واقعات میں ” عدل “ کیا جاتا ، قوی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سا ہیوال کا واقعہ سر ے سے رونما ہی نہ ہو تا ، مگر اس طر ح کے سابقہ واقعات میں کیا ہو تا رہا ہر واقعہ اور اس طر ح کے ہر سانحہ میں مقتول خود گرا خنجر کے نوک پر والی پالیسی اختیار کی جاتی رہی ، اس طر ح کے ہر واقعہ میں پو لیس کو دانستہ بچا یا جاتا رہا ، سانحہ ماڈل ٹا ؤن اس کی بہترین بلکہ بد ترین مثال ہے ، پولیس والے کس طر ح سے نہتے اور معصوم لو گوں پر گولیاں بر ساتے رہے ، پوری قوم نے دیکھا ، مگر اس سارے قضیے میں اب تک کیا پیش رفت ہو ئی ؟ اس طر ح کے طر زعمل سے نقصان کیا ہوا ،یہ کہ قانون شکنی کے باب میں پو لیس آگے ہی بڑھتی چلی گئی ، اس روش کی وجہ سے ہما رے قانون نافذ کر نے والے ادارے بالخصوص پو لیس نے خود کو قانون کا ” دیوتا “ سمجھنا شروع کر دیا ، پو لیس جو قانون کی عمل داری کی ذمہ دار ہے سب سے زیادہ قا نون کے ساتھ کھلواڑ کر نے کے واقعات پولیس کے ہاتھوں ہی رونما ہو ا کر تے ہیں ، بہر طور امید کی جاسکتی ہے کہ ساہیوال واقعہ کے بعد شاید اب ارباب اختیار کی آنکھیں کھل جا ئیں اور آنے والے وقتوں میں ہمیں ایسے واقعات سے پالا نہ پڑ ے ، خدا کر ے کہ ساہیوال واقعہ میں ملوث ذمہ داروں کو انصاف سے پالا پڑ ے تاکہ آئندہ کسی کو ” خلیل “ نہیں بنا یا جا سکے ، مستقبل میں کسی بے گناہ کے بچے یتیم نہ ہو ں ، کرب کے ان لمحات میں اداس پھولوں کے لیے یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ ان کی زندگی رب تعالی آسانیوں سے بھر دے ۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :