” انجام گلستاں کیا ہو گا “

پیر 22 اپریل 2019

Ahmed Khan

احمد خان

کپتان کے ابتدائی بلے باز اسد عمر کا بینہ سے چلتے بنے ، ان کی وزارت سے رخصتی کے بارے میں کئی دن سے خبریں گرم تھیں ، جناب اسد عمر کے استعفی پر سیاست کے رموز او اقاف سے کامل طور پر آگا ہ حلقے مثبت انداز میں تبصرے کر تے پا ئے جا تے ہیں ، ایک ایسا ملک جس میں وزارت چھو ڑ نا سو ہاں روح تصور کیا جا تا ہو ، فطین احباب کو یاد ہو گا کہ پی پی پی حکومت سے بہت سی فاش غلطیاں سر زد ہو ئیں بالخصوص توانائی کا بحران تو پو ری قوم کو یاد ہے ، کیا اس وقت اس طر ح کے استعفی آئے تھے ، ذرا ما ضی قریب کی تاریخ میں جھا نک لیجئے ، مسلم لیگ ن کے عہد اقتدار میں رونما ہو نے والا سانحہ ماڈل ٹا ؤن کو بھلا کو ن بھول سکتا ہے ، مگر بزعم خود اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کیا گھر چلے گئے تھے ، کیا سانحہ ماڈل ٹا ؤن کے ذمہ دارگر دانے جانے والے صوبائی وزراء از خود مستعفی ہو ئے تھے ، بڑی ڈھٹا ئی کے ساتھ اس وقت کی وفاق اور صوبائی حکومت نے سانحہ ماڈل ٹا ؤن کے درد ناک قصے کو دبا نے کے لیے ایڑی چو ٹی کا زور لگا یا تھا، ایک جمہو ری عہد میں جس طر ح سے اسد عمر نے وزارت خزانہ سے ہا تھ اٹھا یا ، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی مثالیں کچھ کم ہی ملتی ہیں ، روشن ضمیری کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ جیسے ہی عوامی چو باروں اور سیاسی اوطاقوں میں میں جناب اسد عمر کی کارکردگی پر تواتر کے ساتھ سوالات اٹھنے لگے مو صوف نے آبرومندانہ طریقے سے وزارت خزانہ سے علیحدگی میں عافیت جا نی ، تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین اسد عمر کی رخصتی پر خوب شادیانے بجا رہے ہیں مگر سیاسی اقدار پر یقین رکھنے والے حلقے اسے اسد عمر کی روشن ضمیری سے تعبیر کر رہے ہیں ، مقابلے میں جناب اسحاق ڈار کے قصے کو بھی ذہنوں میں تازہ کر نے کی زحمت کر لیجئے ، آخر دم کس طر ح سے وزارت سے چمٹے رہے اور جب وزارت سے الگ بھی ہو ئے تو کس طور طریقے سے، تصویر کا دوسرا رخ بھی ملا حظہ کیجئے ، سیاست کی پیالی میں طو فان بر پا ہے ، مسلم لیگ ن نیب کے ہاتھوں اچھے بھلے مصائب کا شکار ہے ، بڑے میاں کی پر یشانی سر سے ٹلی نہیں کہ چھو ٹے میاں صاحب اور ان کے صاحب زادوں کو اس وقت آمدن سے زائد اثاثوں کے معاملے میں نیب تحقیقات کا سامنا ہے ، کم و پیش کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا پی پی پی کے احباب کو بھی ہے نہ صرف آصف زرداری خاندان بلکہ پی پی پی کے کئی جا نے پہچانے چہرے بھی نیب کے زد میں ہیں ، گویا کا رزار سیاست میں چومکھی لڑا ئی کا منظر چل سو چل ہے ، حزب اختلاف کی دونوں تگڑی سیاسی جماعتیں یعنی مسلم لیگ ن اور پی پی پی اپنی مشکلات کی ذمہ دار در پر دہ تحریک انصاف حکومت کو گر دانتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی تو پوں کا رخ تحریک انصاف حکومت کی جانب ہے ، جو اباً تحریک انصاف حکومت کے وزراء بھی ن لیگ اور پی پی پی کے خلاف لفظی گولہ باری کا کو ئی موقع ہا تھ سے جانے نہیں دیتے ، سیاست میں تلخی کا جو عنصر ن لیگ کے عہد میں بڑی تیزی سے پر وان چڑھا تھا اس میں کمی کے بجا ئے آئے روز مزید اضافہ ہو تا جا رہا ہے ، انہی کا لمو ں میں با رہا عر ض کر چکے ہیں کہ حزب اختلاف اگر صحت مند تنقید کی راہ اختیار کر ے ، اس روش سے جہاں حکومت وقت عوامی مفاد کے خلاف کو ئی قدم اٹھا نے سے قاصر رہتی ہے وہی حزب اختلاف کی ” عوامی سیاست “ سے عوامی حلقوں میں بھی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی خوب واہ واہ اور بلے بلے ہو جا تی ہے ، ہما رے ہا ں مگر کیا ہو تا ہے ، حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں ہر دور میں محض اپنی سیاسی اور ذاتی مفاد کے لیے کمر بستہ رہتی ہیں ، ن لیگ کے اقتدار کے بہار میں پی پی پی اور تحریک انصاف اپنی سیاست چمکا نے میں مگن رہیں ، اب تحریک انصاف اقتدار میں ہے تو ن لیگ اور پی پی پی کو اپنی بچا ؤ کی فکر دامن گیر ہے ، المیہ کیا ہے ، عوام کے نام لیوا عوام کے نام پر سیاست کر نے والی سیاسی جماعتوں کو عوام کی رتی بھر پر واہ نہیں کو ئی ایسا ایوان بالا یا ایوان زیریں کا اجلاس بتلا ئیے جس میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے عوام کے مفاد کی خاطر تگڑا احتجاج کیا ہو ، کو ئی عوامی مفاد سے لگ کھا نے والا بل پیش کیا ہو ، ایوان زیریں کو نو ما ہ ہو نے والے ہیں مگر عوامی مفاد کے باب میں آج تک کتنی قانون سا زی ہو ئی ، آخر ہما ری سیاسی جماعتوں کے اس طر ز عمل کے نتائج کیا نکلیں گے ، کب ہماری سیاسی جماعتوں کو عوام کی مشکلا ت کا صحیح معنوں میں ادراک اور احساس ہو گا ، کیا اس گلستاں کا کا روبار انہی طور طر یقوں پر چلتا رہے گا، مگر کب تلک۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :