لیجئے حسب روایت ادھر رمضان کا بابر کت مہینہ شروع ہوا ادھر منافع خوروں نے رعایا کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے شروع کر دیے ، روزے داروں کی عید ماہ رمضان کے اختتام پر ہوا کر تی ہے مگر منافع خوروں کی عید رمضان کے پہلے روزے سے شروع ہو جا تی ہے ، خدا ئی آفت کے آگے خلق خدا پہلے ہی بے بس ہے اوپر سے منا فع خوروں کی ” چاندی “ نے متو سط اور نچلے طبقے کی چیخیں نکال دی ہیں ، دو دن قبل پھلو ں ، سبز یوں اور دیگر اشیا ء خورد و نوش کی قیمتیں کیا تھیں اور رمضان کے پہلے ہی روز بنیادی اشیاء ضرو ریہ کی قیمتیں کہاں پہنچ گئیں ، بات کسی ایک شہر یا قصبے کی ہو تی ، مان لیتے کہ وہاں کے منافع خور ” زبر دست “ اور انتظامیہ ”زیر دست “ ہو گی ، یہاں تو معاملہ مگر کچھ اور ہے ، خیبر سے کراچی تک خلق خدا کی ایک ہی صدا ہے کہ رمضان کے آتے ہی گرانی کے ہا تھوں بے موت ما رے گئے ، اجتماعی رویوں کے تضاد میں کو ئی قوم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی ، کو رونا کی وبا کے لپیٹ میں آنے کے بعد سے ہم گھروں کی چھتوں پر اذانیں دے رہے ہیں ، ایک دوسرے سے دعاؤں کی التجا ئیں کر رہے ہیں ، سر وں پر سفید ٹو پیاں سجا ئے نما زیں پڑ ھ رہے ہیں جبکہ اعمال ہمارے مو ر کی ” ٹا نگوں “ والے ہیں ، مصیبت کی اس گھڑ ی میں بھی ذخیرہ اندوزی اور ناجا ئز منا فع خوری چھو ڑ نے کے لیے ہم تیار نہیں ، کیا دین اسلا م میں ذخیرہ اندوزی کا اذن ہے ، کیا ناجا ئز منافع کما نے کا راستہ ہمارا دین ہمیں دکھاتا ہے ، رب کریم تو حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دیتا ہے ، اسلام تو مصیبت کی گھڑ ی میں اپنے کلمہ گو بھا ئیوں کا ہا تھ بٹا نے کا درس دیتا ہے ، یہاں پر مگر ہمیں نماز تو یاد رہتی ہے مگر اپنے کلمہ گو بھا ئیوں کے جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے سے ہم باز نہیں آتے ، رمضان المبارک کے آغاز کے ساعتوں میں خریداروں اور دکا ن داروں کے درمیاں ” تو تو میں میں “ عروج پر رہی ، متو سط اور نچلے طبقے کو چھو ڑ یے ، اچھے بھلے کھا تے پیتے گھرا نوں والے پھل اور دیگر اشیا ء خورد ونوش لینے بازار آئے اور گرانی کے ہاتھوں خالی ہاتھ گھروں کو لوٹے ، خود سو چیے کہ متوسط اور نچلے طبقے کے دلو ں پر کیا گز ر رہی ہو گی ، کیا متوسط اور نچلے طبقے کے سینوں میں دل نہیں دھڑ کتے ، کیا دو وقت کی رو ٹی نچلے طبقے پر مانع ہے ، خلق خدا کی ہا ہا کا ر آسماں کو چھو رہی ہے ، دوسری جانب مگر محض بیانوں کا سلسلہ عروج پر ہے ، جن کے ہاتھ میں اقتدار اور اختیار کا ” ڈنڈا ‘ ‘ ہے وہ خلق خدا کے ” درد“ سے بے خبر سے ہیں ، ضلعی اور تحصیل سطح کے شہر وں میں ” من مانا “ منا فع کما یا جا رہا ہے پھر دور دراز کے گا ؤ ں گوٹھو ں میں بسنے والوں کا تو خدا ہی حافظ ہے ، اس جمہو ریت سے تو ایوب اور ضیا ء الحق کی آمریت بھلی تھی کہ جن کے ادوار کو بڑے بو ڑھے آج بھی یاد کر کے سر د آہیں بھر تے ہیں اگر ضیا ء جیسا آمر دس پیسے زائد وصول کر نے پر ایک بڑ ی” کی چین“ کے مالک کو دس دن کے لیے جیل بجھوا سکتا ہے ، پھر جمہو ریت کے علم بر دارکہ جن کا ” تکیہ “ ہی عوام پر ہے ، عوام کی خاطر مٹی بھر منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیاکو جیل کیو ں نہیں بھجوا سکتے ، لگے چند سالوں سے ہو کیا رہا ہے ، عوام کی چیخ و پکار اور ذرا ئع ابلا غ کے شور مچا نے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آتی ہے اور چند ایک گراں فروشوں کو ” نما ئشی جرمانے “ کر کے پھر لمبی تان کر سو جا تی ہے ، حضور ! نما ئشی طرز کے جرمانوں سے منا فع خور مافیا کی حوصلہ شکنی ممکن نہیں ، ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرو ائیے ، انہیں طویل عر صے کے لیے جیل کی سیر کروائیے ، قانون کا ڈنڈا جب حرکت میں آئے گا ، تب ہی قانون کی ” جے “ کے نعرے گونجیں گے ، کیا گرا ں فروشوں کو قابو کر نا ناممکن امر ہے ، ایسا کچھ بھی نہیں ، گرا ں فروشوں کے خلاف نہ تو آئی ایس آئی نہ آئی بی اور نہ ہی کسی اور ادارے کو حرکت میں لا نے کی چنداں ضرورت ہے ، صرف ہر صوبے کی پو لیس کو فعال کیجئے ، بہت سے احباب جا نتے ہو ں گے کہ ہر صوبے کی پو لیس میں ایک اسپیشل برانچ ہوا کر تی ہے ، پو لیس کی اس برا نچ کا کام معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر پر کڑی نگاہ رکھنا ہے ، ہر ضلع کے پو لیس کے اسپیشل برانچ کے ذمہ گراں فروشوں کی نگرانی بھی ان کے فرائض میں شامل کی جا ئے ،اس طرح سے با آسانی گراں فروشوں کی گردن قانون ” ناپ “ سکتی ہے ، شرط مگر یہ ہے کہ پو لیس کے اسپیشل برانچ میں ایمان دار اہل کاروں کا تقرر کیا جا ئے ، ہر ضلع کے ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر ان سر کاری پیادوں پر کڑی نگا ہ رکھیں ، چند ہی دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ گراں فروش گرانی سے تا ئب ہو کر سر کاری نر خوں پر اشیا ء خورد و نوش فروخت کر رہے ہو ں گے ،گھوم پھر کر بات وہی آکر اٹکتی ہے کہ ہر ضلع اور تحصیل کے کمان داروں کے دلو ں میں خلق خدا کا درد ہو تب ہی خلق خدا کے زخم مندمل ہوں سکیں گے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔