بھلے مانس عشا ق کا جس طر ح سے کو چہ جا نا ں کے لیے ہر وقت دل مچلتا ہے کچھ ایسی صورت حال ہمارے سیاست دانوں کی بھی ہے کہ جن کا اقتدار سے عشق مر تے دم تک کم ہو نے کے بجا ئے سوا ہوا جاتا ہے ، جنہیں ” کوچہ اقتدار “ کا دیدار نصیب ہو جاتا ہے وہ اپنی اقتدار کی کرسی کی مضبو طی کے لیے دن رات کو شا ں رہتے ہیں ، جن سے بے وفامحبوب کی طرح اقتدار آنکھیں پھیر لیتا ہے وہ کو چہ اقتدار کی ” آوارہ گر دی “ کے لیے ہر لحظہ راہ بنا نے کے لیے تڑپ رہے ہو تے ہیں ، سیاست اور صحافت کے حلقوں میں چہ مگو ئیاں ہو رہی تھیں کہ مارچ اپریل میں تحریک انصاف کے اقتدار کو جھٹکا لگنے کے امکانات روشن ہیں ، یار دوست چھوٹے میاں صاحب کی آمد سے بہت سی کڑ یوں کو جو ڑ رہے تھے ، ایسی مصدقہ اطلا عات ادھر بھی پہنچی ، اقتدار کے ایوانوں میں رد و بدل کی خبروں کو اس وقت زیادہ تقویت ملی جب میاں صاحب واقعتاً پاکستان واپس تشریف لے آئے ، معاملات کھلنے والے تھے کہ عین وقت پر کو رونا نے تحریک انصاف کے اقتدار کو اپنا ” کندھا “ پیش کر دیا ، کو رونا کے ” چلت پھر ت “ نے معاملات جہاں تھے وہا ں روک دئیے ، قصہ پنجاب حکومت سے شروع ہو نا تھا ، بات مگر کو رونا کی اچانک آمد سے جامد ہو گئی ، اہم تر سوال مگر یہ ہے ، کیا تحریک انصاف کے لیے خطرہ بننے والے عوامل کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ، سیاست کے سیانوں کا کہنا ہے کہ بات ابھی ختم نہیں ہو ئی ، کو رونا کے وار جیسے کمزور ہو ئے ، ادھر چائے کی پیالی میں طو فان بر پا ہو گا ، لگے چند دنوں سے پاکستانی سیاست میں طلاطم کی سی صورت حال تیزی سے زور پکڑ رہی ہے ، چھو ٹے میاں صاحب کے بیانات بہت سی باتوں کی چغلی کھا رہے ہیں ، میاں صاحب کی سر گرمیوں سے احباب نے پھر اندازوں کے تیر بر سانے شروع کر دئیے ، کیا میاں صاحب واقعی تحریک انصاف کا سیاسی طور پر کچھ بگاڑنے میں کامران ہو سکیں گے ، یاد رکھیے تحریک انصاف کے اقتدار کو خطرات مخالفین سے زیادہ اپنوں سے ہیں ، آٹے چینی کے قضیے میں جن کے اسم گرامی زیر گردش ہیں ، ان کے حامی کسی بھی حد کو ” پھلا نگنے “ کے لیے تیار بیٹھے ہیں ، تحریک انصاف کے ” اپنے “ اپنی حکومت کے لیے کس حد تک مشکلات کھڑی کر تے ہیں ، ان کا اندازہ آنے والے دنوں میں عیاں ہو جا ئے گا ،جو کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے اپنے ” صبر شکر “ کے ساتھ چپ بیٹھے رہیں گے ، وہ صریحاًغلطی پر ہیں، اندر خانے کچھڑی پک رہی ہے اور خوب پک رہی ہے ،تحریک انصاف کے مخالفین اور تحریک انصاف کے اپنو ں میں رابطے ہیں ان رابطوں کے کیا نتائج نکلیں گے ، اس سارے معاملے میں کچھ احباب کاکر دار بھی اہم ہے جو تحریک انصاف میں ” اکتاہٹ “ محسوس کر رہے ہیں ، ان احباب نے بھی اپنی آنکھیں اور کان کھولے رکھے ہیں ،تحریک انصاف حکومت کے خلاف اگر کو ئی محاز سجتا ہے قومی امکانات ہیں کہ یہ ” اکتا ئے ہو ئے احباب بھی اپنا وزن تحریک انصاف کے مخالف پلڑے میں ڈالیں گے ، سیاست کے نباضوں کا کہنا ہے کہ بھلے تحریک انصاف کی حکومت نہ جا ئے مگر اس نئے سیاسی گٹھ جو ڑ سے بالعموم تحریک انصاف اور بالخصوص جناب خان کے لیے نئے محاذ کھلنے والے ہیں ، ان محاذوں پر جناب خان کیسے مو رچہ بند ہو تے ہیں ، حالات کو اپنے حق میں موافق کر نے کے لیے کو ن سے ” پتے “ استعمال کر تے ہیں ، بہر طور سید ھے سبھا ؤ لب لبا ب یہ کہ آنے والے دن جناب خان اور ان کی حکومت کے لیے ” سخت کوشی “ کا پیام دے رہے ہیں ، کیا اس سارے قصے میں میاں صاحب ” کمان دار “ کا کردار ادا کر یں گے اگر چہ میاں صاحب کی خواہش اور کوشش یہی ہے بوجوہ اگر میاں صاحب اس سارے معاملے سے ” آوٹ “ بھی ہو جا ئیں ، ن لیگ کے احباب لا زماً تحریک انصاف حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر نے والوں کے شانہ بشانہ کھڑ ے ہو ں گے ، معامات کہاں سے بگڑ رہے ہیں ، جناب خان جیسے تیسے ن لیگ اور پی پی پی کی مخالفت کے آگے بند باندھ سکتے ہیں مگر اپنی صفوں سے اٹھنے والی مخالفت پر قابو پا نا تحریک انصاف اور جناب خان کے لیے انتہا ئی مشکل امر ہے ، نت نئی خبروں کا سلسلہ شروع ہو ا چا ہتا ہے ، اگلے ایک دو ماہ میں گر می کے ساتھ ساتھ کو چہ سیاست کا درجہ حرارت بھی آپ بلند ہو تے ہو ئے دیکھیں گے ، دیکھنا یہ ہے کہ ” بادشاہ گر “ پتا کس کے ہاتھ آتا ہے اور وہ اس کا استعمال کس طر ح سے کر تا ہے ، تکلیف دہ امر یہ ہے کہ سیاست کے اس جو ڑ توڑ اور رسہ کشی میں سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہوگا کہ جو پہلے مسائل کا شکار ہیں، اس نئی ” افتاد“ سے اقتدار کے ایوانوں میں آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہو جا ئے گا ، ظاہر ہے کہ جب جاں پر بنی ہو اس وقت پھر کسے عوام کا خیال رہتا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔