نجی تعلیمی ادارے، حقیقت کیا فسانہ کیا

بدھ 13 مئی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

آج کل نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں پر خوب لے دے ہو رہی ہے ، نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کے زبانو ں پر ” مٹ چلے “ کا کلمہ رواں ہے دوسری جانب حکومت وقت نجی تعلیمی اداروں کو بیس فیصد فیسوں میں کمی کر نے کے لیے بضد ہے ، نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کے کے والد ین نے الگ سے آسماں سر پر اٹھا رکھا ہے ، اس سارے قضیے میں کسی کو کچھ سوجھائی نہیں دے رہا کہ کس کا کہا درست ہے کس کا کہا غلط ، معاملہ در اصل ہے کیا ، وطن عزیز میں نجی تعلیمی اداروں کے بھی مالیاتی لحاظ سے کئی درجے ہیں ، اول وہ نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں خالصتاً امراء کے چشم و چراغ تعلیم حاصل کر تے ہیں اگر چہ یہ تعلیمی ادارے وطن عزیز میں واقع ہیں مگر ان کے رنگ ڈھنگ ، ان کی تدریس اور آداب پر ” اغیار “ کی چھا پ نما یاں ہے ، ان کی فیسیں اگر آپ کو پاکستانی روپے میں بتا دی جا ئیں تو آپ ہکا بکا رہ جا ئیں، مالی جسامت کے لحاظ سے دوسرے درجے پر وہ نجی تعلیمی ادارے ہیں جو خالصتاً کا روباری نقطہ نظر سے کاروباری سوچ کے حامل احباب نے کھول رکھے ہیں ،ان کی فیسیں بھی انتہا ئی بھا ری بھر کم ہیں ، اوپر کے سطو ر میں جن نجی تعلیمی اداروں کا تذکرہ کیا گیا ہے ، ان میں پڑ ھنے والے طلبہ و طالبات وہ ہیں جوحقیقتاً منہ میں سونے کا” نوالہ“ لے کر پیدا ہو ئے ہیں ، ان طلبہ و طالبات کے والدین با آسانی فیسوں کا بوجھ بر داشت کر سکتے ہیں ، نجی تعلیمی اداروں میں مالی حجم کے لحاظ سے ایک تیسرا درجہ بھی ہے ۔

(جاری ہے)


تیسر ے درجے والے ان نجی تعلیمی اداروں میں متوسط طبقے کے بچے پڑ ھتے ہیں ، پہلے یہ جاننے کی کوشش کر تے ہیں کہ تیسر ے درجے کے نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کو ن لو گ ہیں ، وہ خواتین و حضرات جو تعلیم کے ہنر سے لیس ہونے باوجود مناسب روگار کے حصول سے محروم رہے ، سو انہوں نے باعزت طور طریقے سے روزی کمانے کے لیے سکول کھول لیے ، انہی میں سے کچھ ایسے ہیں جو واقعتاً تعلیم کو عام کر نے کے خواں ہیں ، لہذا انہوں نے بھی اپنے حصے کی شمع روشن کر نے کے لیے سکول کھول رکھے ہیں ، دراصل یہی وہ نجی تعلیمی ادارے ہیں جو کو رونا کے وار بھی سہہ رہے ہیں اور حکومت کے زیر عتاب بھی ہیں ، متوسط طبقے کے” تا روں “ کو زیور تعلیم سے آراستہ کر نے والے یہ نجی تعلیمی ادارے اس وقت شد ید ترین مالی بحران کا شکار ہیں ، متوط طبقے کی نما ئندہ یہ تعلیمی ادارے زیا دہ تر کرا یے کے عمارتوں میں چل رہے ہیں ، کو رونا کے اچانک وار نے پورے ملک کی طر ح ان نجی تعلیمی اداروں کا نظام بھی تہس نہس کر کے رکھ دیا ، زیادہ تر سکولوں کو مارچ کی فیسیں نہیں ملیں ، اوپر سے طویل لا ک ڈاؤن نے ان کے ساتھ شاہ کو مارے شامدار والا معاملہ کر دیا ، چند سو فیس لینے والے ان نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کہاں جائیں ، کیا کر یں ، انہیں کچھ دکھا ئی نہیں دیتا ، اسی زمر ے میں بات چل نکلی ہے تو ذرا گہرائی تک جا تے ہیں ، اگر چہ سکول بند ہیں مگر ان سکول مالکان کو کرایے ہر صورت دینے ہیں ، بجلی کے بل ہر صورت انہیں سر کار کے خزانے میں جمع کروانے ہیں ، گھر داری ان کے لیے الگ سے سو ہان رو ح بنی ہو ئی ہے ۔

 یہاں پر ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے ، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیمی اداروں کے مالکان کو طلبہ و طالبات کی فیسوں اور ٹک شاپ کی ” ٹک ٹک “ ملا کر ماہا نہ اتنی آمدن ہو جا تی ہے کہ بس اپنی سفید پو شی کا بھر م قائم رکھ سکیں ، جو احباب چند سو فیس لینے والے ان نجی تعلیمی اداروں کا موازنہ امراء اور کاروباری تعلیمی اداروں سے کرتے ہیں ، یہ ان سفید پو ش پڑ ھے لکھے طبقے سے ناانصافی ہے ، تعلیم کے بڑے ضرور بہ ضرورہزاروں اور لاکھوں میں فیس لینے والے نجی تعلیمی اداروں کو نکیل ڈالنے کی سبیل کر یں مگر شہر وں بلکہ خاص طور پر قصبوں اور دیہاتوں میں چلنے والے مالی لحاظ سے کمزور نجی تعلیمی اداروں پر ہاتھ ذرا ہو لا رکھیں ، پتے کی ایک اور بات بھی عر ض کیے دیتے ہیں ان نجی تعلیمی اداروں سے گاؤں گوٹھو ں کے بے شمار سفید پوش گھرانوں سے تعلق رکھنے والی ہماری بہنوں کا رزق بھی وابستہ ہے اگر چہ یہ نجی تعلیمی ادارے قلیل تنخواہیں دیتے ہیں مگر جیسے تیسے ہماری بہت سی بہنوں کو کم از کم باعزت روزگار میسر ہے، سر کار کے کر نے کا کام کیا ہے ، یہ کہ بلا تقریق تمام نجی تعلیمی اداروں پر کڑ ی نظر رکھے ، کو ئی نجی تعلیمی ادارہ اپنے اساتذہ کے ساتھ زیادتی تو نہیں کر رہا ، کیا ان نجی تعلیمی ادراروں میں پڑھانے والے مر د اور خواتین اساتذہ کو تنخواہیں بر وقت ادا کی جاتی ہیں یا نہیں ، کیا کو ئی نجی تعلیمی ادارہ ملکی قانون اور اقدار کے خلاف تو کام نہیں کر رہا ، سر کار کے لیے ان معاملات پر نگا ہ رکھنا ناممکن نہیں ، صوبے سے لے کر تحصیل تک سرکار کا مر بوط تعلیمی ڈھا نچہ مو جود ہے سو با آسانی نجی تعلیمی اداروں پر قانون کی نگاہ رکھی جاسکتی ہے ، جہاں تک ان نجی تعلیمی اداروں کے جائز مسائل ہیں ان پر کان دھرنا حکومت وقت کا فر ض اولیں ہے، زمینی حقائق کو دیکھ کر جو بھی فیصلے کیے جا تے ہیں انہی میں عوام کا مفاد پو شید ہ ہو اکرتا ہے ۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :