” ان سے ملیے“

منگل 14 جولائی 2020

Ahmed Khan

احمد خان

جرم ضعیفی کے ہاتھوں بزرگ خاتون کے لیے چلنا محال تھا بڑی مشکل سے خاتون ایک کے بعد دوسرا قدم اٹھا رہی تھی اسی اثنا میں مو ٹر سائیکل سوار پو لیس اہل کار بزرگ خاتون کے پاس آکر رکا اور ادب سے لب ریز لہجے میں بزرگ خاتون سے مخا طب ہو ا ، ماں جی کہاں جا نا ہے بزرگ خاتون نے سر اٹھا کر وردی میں ملبوس اہل کار کو دیکھا تو جھٹ سے بولیں کہیں نہیں جانا ، پو لیس اہل کار پہلے سے بھی کہیں زیادہ محبت آمیز لہجے میں بولا ، ما ں جی میں آپ کا بیٹا ہو ں آپ بتا ئیں آپ نے کہاں جا نا ہے میں آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہو ں ، بزرگ خاتون نے جواب دیا بیٹا آپ جا ئیں میری وجہ سے آپ کو ڈیوٹی سے دیر ہو جا ئے گی جواباً پو لیس اہل کار بولا ماں جی میری پہلی ڈیوٹی آپ کو آ پ کی منزل مقصود پر پہنچا نا ہے اس کے بعد میری اپنی ڈیوٹی شروع ہو گی ، بزرگ خاتون دعائیں دیتی پو لیس اہل کارکے ساتھ مو ٹر مو سائیکل پر بیٹھ گئیں اور پولیس اہل کار بزرگ خاتون کو منزل کی جانب لے کر رواں ہو گیا ، صفائی کے سر کا ر ی شعبہ میں گلی محلوں میں صفائی کر نے والی غیر مسلم خاتون کی شکا یت محلے کے مکینوں نے اوپر کر دی کہ صفائی کر نے والی غیر مسلم خاتون گلی محلے کا تمام کچرا ٹھا لیتی ہے مگر ایک دو شاپر ہر روز چھو ڑ دیتی ہے ، غیر مسلم خاتون کو باز پرس کے لیے افسر نے دفتر طلب کیا اور وجہ پو چھی ، صفائی کر نے والی غیر مسلم خاتون بولی جناب والا جس محلے میں میری صفائی کر نے کی ڈیوٹی لگی ہے وہاں سے ہر طر ح کا کچرا میں اٹھا لیتی ہو ں مگر اس محلے کے مکین بچی ہو ئی روٹی بھی کچرے کے لیے مخصوص جگہ پر ” ڈال “ دیتے ہیں میں اگرچہ غیر مسلم ہو ں مگر مجھے بتا یا گیا ہے کہ دین اسلام میں رزق کے احترام کی بار بار تاکید کی گئی ہے سو میرا ضمیر گوا را نہیں کر تا کہ مسلمانوں کے رزق کو گند گی کے ساتھ گڈ مڈ کر وں اس لیے میں بچی ہو ئی روٹی اکھٹی کر کے گلی کے کونے پررکھ دیتی ہوں کہ شاید کو ئی نیک دل مسلمان احترام کے تمام تقاضوں کے مطابق اس کا بند و بست کر لے ، مسلمان افسر غیر مسلم خاتون کا جواب سن کر صرف سر جھکا سکے بولنے کی ہمت اس کی سلب ہو چکی تھی ، ایک جوان رعنا ہو ٹل میں کا ہگوں کو کھا نا دینے پر مامور ہے جب کسی کا ہگ سے روٹی اور سالن باقی بچ جا تا ہے وہ ملا زم بچی ہو ئی روٹی اور سالن ایک جگہ پر جمع کر تارہتا ہے جب خود کھانے کا وقت ہو تا ہے تو کا ہگوں کی وہی بچی ہو ئی روٹی اور سالن کھالیتاہے ، دیکھنے والے نے جب اس جوان رعنا کا یہ عمل تواتر سے دیکھا تو پوچھ بیٹھے کیا ہو ٹل کا مالک آپ کو کھا نا نہیں دیتے ، بولے ہو ٹل کا مالک انتہا ئی دین دار اور نیک دل انسان ہے کھا نے پر کو ئی پابندی نہیں جتنا دل کر ے کھا نے کی اجازت ہے ، دراصل رزق کی بے قدری مجھ سے دیکھی نہیں جاتی اس لیے بچی ہو ئی روٹی اور بچا ہوا سالن جمع کر کے خود کھا لیتا ہو ں تاکہ رب کریم کے دئیے ہو ئے نعمتوں کی ناقدری اور ناشکری نہ ہو ، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے لوگ اب کہاں ، عر ض ہے کہ یہ کردار ماضی بعید کا حصہ نہیں بلکہ یہ تینوں کردار اپنے اپنے شعبوں میں آج بھی موجود ہیں اور اپنے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں ،پولیس میں تعلیم یافتہ جوانوں کی آمد سے بہت بہتری آئی ہے ، پو لیس کو صیحح معنوں میں ٹھیک کر نا ہے تو آئی جی سے ایس ایچ او تک کے افسران کا قبلہ درست کر یں ، پولیس کے افسران میں دیانت داری ایمان داری اور خوف خدا کے جذبات پیدا کر دیجیے ، آئی جی سے ایس ایچ او تک میں قانون کی پاسداری کی روح پھو نک دیجیے ، قلیل وقت میں یہی پو لیس دنیا کی مثالی پو لیس بن جا ئے گی، پو لیس کا ہر جوان آپ کو اسی طر ح لا چاروں ، بیماروں اور کمزروں کی مدد کر تا ہوا نظر آئے گا،شہروں کی گلی کو چوں میں صفا ئی کرنے والوں کو ہم حقیر سمجھتے ہیں مگر صفائی کر نے والی غیر مسلم خاتون کے طرز عمل نے بہت کچھ عیاں کر دیا ہے یہ الگ بات کہ سمجھتے ہو ئے بھی ہم نہ سمجھیں، ہو ٹل پر کام کر نے والے ملا زم کے عمل میں بھی ہمارے لیے بہت بڑا سبق پوشید ہے، مد عا کیا ہے ، اپنا حسب نسب ، اپنا جاہ و جلال ، اپنے سماجی مرتبہ، اپنی دولت اپنا مال و اسباب اپنی آن بان شان ترازو کے ایک پلڑ ے میں ڈال لیجیے اور ترازو کے دوسرے پلڑے میں یہ تینوں کردار ڈال دیجیے ، عظمت کی بلندیوں پر کو ن ہے ، سماجی لحاظ سے کس کا قد کاٹ بڑا ہے ، ایوان عدل کے امیں آپ ، منصف آپ ، منصفی آپ کی ، سو فیصلہ آپ پہ چھو ڑے دیتے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :