” یہ عوام کا خوں ہے رنگ شراب نہیں “

بدھ 26 اگست 2020

Ahmed Khan

احمد خان

معروف اداکارہ پر قائم ” آب ممنوعہ “ کے مقدمے کا فیصلہ آخر کار صادر ہو ہی گیا ، بکر ی چو ر ی طر ز کے اس مقد مے کو انجام تک پہنچا نے میں ہمارے نظام عدل کو مگر نو سال لگے ، نو سال تک متعلقہ اداکارہ کے خلاف دو بوتل ” آب ممنو عہ “ برآمدگی کا مقدمہ چیونٹی کی رفتار سے چلتا رہا ، نو سال موصوفہ نے کس کرب سے گزارے ہوں گے وہی بہتر بتا سکتی ہیں ، سوال ” مواد “ کا نہیں سوال دراصل نظام کا ہے ہمارا معاشرہ کیوں تنزلی کا شکار ہے ، جبر اور بر بریت کی خوف ناک داستانیں آئے روز کیو ں رقم ہو رہی ہیں ، طاقت وراپنی طاقت کے نشے میں ہر وقت کیوں چور رہتا ہے ،قانون کو پا ؤں تلے روندنے کی روایت وطن عزیز میں کیوں راسخ ہے ، دھوکہ ،فریب ، قتل و غارت گر ی ، چوری چکاری کا چلن کیوں عام ہے ، ہر شعبہ زندگی میں کیوں ” مافیا“ کا راج ہے ، دوسروں کے حقوق پر کھلے بندوں ڈاکے ڈالنا کیوں عام سی بات ٹھہری ، صرف اس وجہ سے کہ وطن عز یز میں عملاً نو شیروانی عدل کا نام و نشاں تک نہیں ، ہماری ” خرابی بسیار “ کی اصل جڑ انصاف کا قتل نہیں بلکہ انصاف کے حصول میں تاخیر اور تاخیری حربے ہیں ذرا اندازہ لگا نے کی زحمت کر لیجیے نو سالوں میں ایک معمولی سے مقدمے سے جاں خلاصی کے لیے خاتون نے کتنی تگ و دو کی ہو گی ، انصاف کے حصول کے لیے کتنا زر خرچ کیا ہوگا ، ان نو سالوں میں کورٹ کچہری کے کتنے چکر اس کے نصیب بنے ہو ں گے ، عدل کی راہ میں حائل رکا وٹوں نے وطن عزیز کو تباہی کے دھا نے پر کھڑا کر دیا ہے ، انصاف کی تیز تر فراہمی کے نعرے ہر دور میں گونجتے رہے ہیں ، ہر حکمران نے انصاف کی فراہمی کے گھوڑے کو چابک رسید کر نے وعدے کیے عملاً مگر وطن عزیز میں انصاف کا حصول ایک خواب ہے اور شاید رہے گا ، اقوام غیر کی ترقی اورسماجی خوش حالی کا راز کیا ہے ، وہاں انصاف کا بول بالا اور ظلم کا منہ کا لا ہے ، انصاف کی فراہمی میں اقوام مغرب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے محمود و ایاز کا قانون مغرب میں نافذ ہے ، نوشیرواں کا عدل غیر مسلم معاشروں میں چل سوچل ہے ، دین اسلام حکمران جس کے پیروکار ہونے کے دعوے دار ہیں اس معاشرے میں مگر انصاف کی جگہ ظلم و بر بریت کا راج ہے ، سمجھ لیجیے کہ پاکستانی معاشرے میں ظلم کی رفتار خرگوش کی سی ہے اور عدل کی رفتار مانند کچھوا ، انصاف کے باب میں تاخیر در تاخیر دراصل ظلم کی حوصلہ افزائی ہے ، قتل و غارت گر ی کی اپنے ہاتھوں آب یاری ہے ، دھوکہ دینے والوں کی چاندی ہے ، طاقت وروں کا حوصلہ ہے ، جس معاشرے میں عام آدمی کو ” زنجیر عدل “ ہلا نے میں سالوں لگ جا ئیں اس معاشرے میں عدل کے حصول کے لیے بالوں میں ” چاندی “ کا آنا معمول سمجھ لیجیے ، کسی بھی معاشرے میں جنگل کے قانون کا بول بالا کیو ں ہو تا ہے ، اس لیے کہ اس معاشرے میں نظام انصاف کی ” چھڑی “ انتہا ئی کمزور ہو اکرتی ہے ، سالو ں بیت گئے وقت بدل گیا زندگی کے تقاضے بدل گئے نہیں بد لا تو وطن عزیز میں صرف نظام انصاف نہیں بدلا ، نظام انصاف میں حائل رکا وٹیں ہی در اصل مظلوم کو انصاف کے در پر دستک دینے سے روکتی ہیں کئی سال پہلے ایک کاروباری دوست کے ہاں چوری کی واردات ہو ئی ملا قات پر عرض کیا ، کیا تھا نے کو باضابطہ مطلع کیا ہے ، بولے جو چلا گیا اس پر صبر کر لیا تھا نے کچہری میں جتنی مالیت کی چوری ہو ئی اس سے کہیں زیادہ لگ جا تے اور حاصل وصول کچھ نہیں ہونا تھا ، انصاف کے حصول کے باب میں اریب قریب ہر دوسرے شہری کی سوچ یہی ہے سو لا تعداد ” مظلومین “ ایسے ہیں جو انصاف کے در پر دستک دینے کے بجا ئے چپ چاپ ظلم سہنے کو ترجیح دیتے ہیں ، تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کر لینے میں کو ئی حرج نہیں اگر ایسا مقدمہ کسی امیر کسی وزیر کسی کبیر پر درج ہو تا پھر کیا ہو تا پہلے تو ہمارے معاشرے میں طاقت ورکے ساتھ ایسے” حسن سلو ک“ کی رتی برابر امید نہیں کی جاسکتی اگر بفرض محال ایسا ہو بھی جاتا ، یاد ہے ایک ایسے ہی بڑے مقد مے میں ایک سر پھرا کسٹم انسپکٹر اپنی جان سے گیامگر طاقت ورگروہ کا بال تک بیکا نہیں ہوسکا ،المیہ کیا ہے، یہ کہ یہاں طاقت ورر کو دنوں میں انصاف مل جاتا ہے مگر عام آدمی کو انصاف ملتے صدیوں لگ جاتے ہیں پتے کی بات کیا ہے جب تک معاشرے میں نظام انصاف کا قبلہ درست نہیں کیا جاتاترقی اور خوش خالی کے لاکھ کوشش کیجیے معاشرے میں ککھ بھی بہتری نہیں آنے والی چاہے اچھا لگے یا برا تلخ سچ بہر حال یہی ہے، بہر طور آب ممنوعہ مقدمے میں باعزت بر ی ہو نے پر معروف خاتون کو مبارک باد کہ خوش نصیبی سے ان کی حیات میں انہیں انصاف مل گیا بہت سے تو ایسے ہیں جو انصاف کے حصول کے لیے دردر کی ٹھو کریں کھا کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے مگر انصاف نام کی ” ہما “ ان کا نصیب نہ بن سکی ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :