” اخلاقیات کی تد فین کے بعد “

بدھ 16 ستمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

عہد جدید کی آسانیاں فراوانیاں اور حشر سامانیاں اپنی جگہ صد فی صد درست مگر تن آسانی کے یہ مراحل طے کرتے کر تے انسانیت کو ہم یکسر بھول ہی گئے آدمیت کو نظر انداز کر گئے ، احترام انسانیت کے ” قید “ سے آزاد ہو گئے دو دہا ئیوں کے ” لچھن “ نے معاشرے کو آہ و بکا پر مجبور کر دیا اگر اقدار سے طو طا چشمی کی ریت پر اسی طرح پا کستانی معاشرہ گامزن رہا مستقبل میں شاید سماجی افراتفری کے باب میں ایسے ایسے ہو لنا ک سانحات وطن عزیز کا مقدر بنیں جن کے بارے میں سو چنا بھی محال محسوس ہو تا ہے ، اخلاقی قدروں سے ہٹنے کے نتائج دراصل آج قوم بھگت رہی ہے ، اسلامی تعلیمات سے دوری اور مشرقی اقدار کو فر سودہ قرار دینے کے بعد اب انسانیت کی جگہ حیوانیت کا سامنا کر نے کے لیے تیار ہو جا ئیے ، تر بیت کے تین بڑے ادارے ہیں ، اخلاقی اور شخصی تربیت کے تینوں ادارے مگر اپنے ہاتھوں قتل کر نے والے ہم خود ہیں ، کسی بھی بچے کے لے اس کے ماں باپ تربیت کا اولیں ادارہ ہوا کر تے ہیں ، بھلے وقتوں میں اسلامی اور مشرقی اقدار کو بچے میں راسخ کر نے کے لیے ماں باپ بچے پر خاص دھیان دیا کرتے تھے نہ صرف گھر یلو طور طریقوں میں ما ں باپ بچے پر ” شیر کی نظر “ رکھا کر تے بلکہ گھر سے باہر بچے کے ما حول کی بھی باقاعدہ ” جاسوسی “ کی جاتی ، پیسے کی ہوس کہہ لیجیے یا ضرورت ، عہد حاضر کے والدین اپنی اولاد کی تربیت پر وہ توجہ نہیں دے رہے جس کا تقا ضا انسانیت اور ہمارا مذہب کر تا ہے ، تربیت کے باب میں والدین کی اس ” سہل پسندی “ نے اب گل کھلا نے شروع کر دیے ہیں ، اخلاقی تربیت کا دوسرا اہم ادارہ ” معلم “ ہوا کر تا ہے لگے دو ہائیوں میں نئی نسل کی تربیت میں کلیدی کر دار ادا کر نے والے اس اہم تر ” ادارے “ کو بھی کچھ حکومتی پا لیسیوں نے تبا ہ کیا کچھ اب وہ استاد نہیں رہے جو نئی نسل کی تربیت اوراخلاقیات کا درس دینے میں ہمہ وقت مگن ہو ا کرتے ، تعلیمی نظام میں ” آدھا تیتر آدھا بٹیر “ طر ز کی حکومتی پا لیسیوں اور اس مد میں اساتذہ کی غفلت کی وجہ سے اب نئی نسل کو ” کتابی کیڑا “ اور نمبرز لینے والی مشین بنا نے کی جستجو تو کی جاتی ہے تربیت کے حوالے سے مگر درس گاہوں میں وہ چابک دستی نظر نہیں آتی جو کبھی بھلے وقتوں میں نظر آتی تھی ، نئی نسل کی تربیت کا ایک اہم تر ذریعہ ذرائع ابلاغ ہوا کر تے ہیں ، ریڈیو ٹی وی اور اخبارات کا نئی نسل کی تربیت میں ہمیشہ سے نما یاں مرتبہ رہا ہے ، گزرے زمانے میں ریڈیو سے نو نہال وطن کی تربیت اور نو جوان نسل کی کردار سازی کے لیے خصوصی پرو گرام نشر ہوا کر تے تھے ان سبق آموز ریڈ یو پروگراموں کے ذریعے نئی نسل کو اچھے برے میں تمیز کر نے کی تلقین کی جاتی ، نئی نسل کے لیے ” بھو لے بھا لے “ انداز میں اخلاقی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ، کیا اب ریڈیوسابق ادوار کی طرح نئی نسل کی کردار سازی اور اخلاقی تر بیت میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ، اس اہم سوال کا جواب آپ پر چھو ڑے دیتے ہیں ، نئی نسل کی تر بیت کے باب میں بصری ابلاغ کے حوالے سے ٹی وی کے کردار سے بھلا کو ئی بھلے مانس انکار کر سکتا ہے ، ایک وقت وہ تھا جب ٹی وی پر اسلامی اور مشرقی اقدار کو مد نظر رکھ کر مواد اور منظر کشی کی جاتی تھی ، ٹی وی پر ایسے ” مواد “ سے اجتناب بر تا جاتا جس سے اسلامی اور مشرقی اقدار کو زک پہنچنے کا ذرا سابھی احتمال ہوتا ، نئی نسل کو بگاڑنے کے بجا ئے سنوارنے کے لیے سبق آموز قسم کے ڈرامے خصوصی طور پربنا ئے اور دکھا ئے جاتے تھے ہر ٹی وی ڈرامے کا اختتام بھلا ئی کا پیغام دیا کر تاتھا ، عہد حاضر کے ٹی وی ڈراموں کا ” مواد “ اور منظر کشی ملا حظہ کر لیجیے ، ان ٹی وی ڈراموں کے مکالموں پر غور کر نے کی زحمت کر لیجیے ان ٹی وی ڈراموں میں کر داروں کے لباس کی ” خراش تراش “ کا ناقدانہ جانچ کر لیجیے ، مو جودہ ٹی وی ڈراموں میں جن مو ضوعات کو زیر بحث لا یا جاتا ہے ، کیا یہ مو ضوعات ہمارے معاشرے کی عکا سی کرتے ہیں ، کیا یہ مو ضوعات ہمارے اقدار سے ذرا سا بھی لگ کھا تے ہیں ، کیا ان ڈراموں کے مکالموں میں نئی نسل کی اخلاقی تربیت کا پیغام پنہاں ہوتا ہے ، کیا ان ڈراموں میں کردار وں نے جس طر ح کا لباس زیب تن کیا ہو تاہے ، حیا کے دعوے دار معاشرے میں اس طر زکے ” خراش تراش “ کے حامل لباس کو پذیرائی بخشی جاسکتی ہے ، نئی نسل کی تربیت میں اخبارات و رسائل اور جرائد کے تذکرے کے بغیر بات بن نہیں سکتی تو سن لیجیے ، ہر اخبار ہر رسالے ہر جریدے کا مواد ایک خاص معیار کا ہوا کر تا تھا ، ہر اخبار کے ذمہ دار ایسا مواد چھاپنے سے گریز پا رہتے جس سے اسلامی تعلیمات اور مشر قی اقدار کی نفی ہو تی ہو بالخصوص تصویری صحافت کے باب میں ” حیا“ کے عنصر کو خصوصی اہمیت دی جاتی ، یہاں پر بھی مگر میعار کی جگہ اب ” نمبر ون “ کی دوڑ نے نئی نسل کی تربیت کو پس پشت ڈال دیا ہے ، بتلا ئیے نئی نسل کی تربیت کے باب میں اس انفرادی اور اجتماعی غفلت کے ذمہ دار جب اپنے فرائض اپنے کندھوں سے اتار چکے پھر احترام ، عزت ، حمیت اور حیا جیسے انسانی اقدار کیسے نئی نسل میں منتقل ہو ں گے اور کیونکر ہو ں گے ، اپنے ہاتھوں اخلاقیات کی ” تدفین “ کے بعد اب اخلاقیات انسانیت اور آدمیت کا بھاشن دیتے آپ ذرا سا بھی اچھے نہیں لگ رہے ، اپنے ہا تھوں حیوانیت کو پروان چڑھا رہے ہیں اور آہ و بکا بھی کر رہے ہیں ، بات ایسے بننے والی نہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :