”اصول اور وصول“

پیر 28 دسمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

فانی دنیا کا مسلمہ قاعدہ ہے اقوام عالم اپنے معاملات اپنے تنا زعات اپنے امور اپنے رموز ملکی اور عوامی مفاد کو سامنے رکھتے ہو ئے وضع کر دہ اصولوں پر چلا تے نبھا تے اور نمٹاتے ہیں ، ریاست اور حکومت کی سطح کا چھوٹے سے چھو ٹا امر ملک کے وضع کر دہ زریں اصولوں کی عین روح کے مطابق حل کیا جاتا ہے ، ملکی اصولوں کے آگے شاہ اور گدا دونوں سر تسلیم خم کر تے ہیں ، اصول پسند معاشروں میں کسی طرم خاں کی جرات تک نہیں ہو تی کہ ملکی اصولوں سے انحراف کر نے کی سعی کر ے عملا ً اصول پسندی دیکھنی ہو تو اغیار کے معاشروں کی سما جیات کی جا نچ کر لیجیے ، وطن عزیز میں مگر نرالہ چلن عام ہے یہا ں اصول کی جگہ ” وصول “ کا سکہ چلتا ہے اور خوب چلتاہے جگاڑ کے بعد کھل جا سم سم کا درجہ ” وصول “ کو حاصل ہے ، پاکستان میں کو ئی بھی مشکل سے مشکل کام ” وصول “ کے دم قدم سے چٹکی بجا تے ہو جاتا ہے ، کیا سرکاری کیانیم سرکاری کیا غیر سر کاری ادارے سبھی اصول کے بجا ئے ” وصول “ کا لباس زیب تن کیے ہو ئے ہیں ، تھا نے جا ئیے اور اصول کے بل پر بات کر نے کی کو شش کر کے دیکھ لیجیے آپ کے ساتھ تھا نے کا عملہ کیا سلوک کر تا ہے ، اپنے جائز مسئلے کے لیے آپ دنوں مہینوں بلکہ سالوں پولیس کا طواف کر تے رہیں گے مگر آپ کا مسئلہ جہاں تھا وہی رہے گا آپ اصول کو لپیٹ کرجیب میں ڈال لیجیے اور ” وصول “ کو جیب سے نکال کر تھا نے کے بادشاہ کے ہاتھ پر رکھ دیجیے ، آپ کا مسئلہ اسی تھا نے کا عملہ پل بھر میں حل کردے گا ، محکمہ مال سے لا زماً واسطہ پڑا ہوگا فر د کے حصول کے لیے یہاں پر تو ” اصول “ کاداخلہ بالکل بند ہے ، محکمہ مال میں بھلے آپ کا جو بھی کام اٹکا ہے آپ چاہے جتنے ” دھانسو“ ہیں یہاں کے ”بادشاہ “ اصول کے نام تک سے آشنا نہیں مال کے اسم گرامی والے ادارے میں صرف اور صرف ” مال “ کا سکہ ہی چلتا ہے ، اور کھلے بندوں چلتا ہے جب تک محکمہ مال کے اہل کا روں کی ناک ”وصول “ کی خوش بو نہیں سو نگھتے اس وقت تک محکمہ مال سے آپ کی جاں خلاصی کسی صورت ممکن نہیں ، ہما رے کہے پر یقین نہیں تو کسی دن اس اہم ترین ادارے کے کسی بھی دفتر میں تشریف لے جا ئیے، آپ کو خود اصول اور وصول کا مفہوم بھلے طریقے سے سمجھ آجا ئے گا ، بڑے بڑے طر م خاں تخت نشیں ہو ئے بڑے بڑوں نے پولیس اور محکمہ مال کو نکیل ڈالنے کے دعوے اور جھانسے سادہ لو ح عوام کو دیے بلکہ ہنوز دے رہے ہیں، المیہ مگر ملاحظہ کر لیجیے یہ تخت نشیں خود اصول کی جگہ ” وصول “ کے غلام بنے ، اصول اور وصول کا قصہ محض پو لیس اور محکمہ مال پر ہی ختم شد نہیں ہو تانظام انصاف کے بتدریج زمین بوس ہو نے کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام ادارے بھی اصول کو طاق میں رکھ کر” وصول “ کے قاعدے پر عمل پیرا ہو تے چلے گئے لگی چند دہا ئیوں میں جب اوپر کی سطح پر اصول کی جگہ ” وصول “ کا چلن عام ہو تا چلا گیا نیچے والوں نے بھی اپنے ” نو شیر وانوں “ کی دیکھا دیکھی ” وصول “ کو اپنا اوڑھنا بچھو نا بنا لیا ، اس وقت وطن عزیز میں قانون اور اصول عملا ً طویل جبری رخصت پر بھیج دئیے گئے اب ہر سو صرف ” وصول “ کا بول بالا ہے ، ملک کا کو ئی ادارہ ایسا نہیں جہاں عملا ً وصول کا راج نہ ہو ، الٹی گنگا کے حامل اس ملک میں جہاں قانون کا راج ہونا چا ہیے تھا جہاں اسلام کے قوانین کو پذ یرا ئی ملنی چا ہیے تھی اس ملک خداداد میں ” وصول “ کا ہر سو چر چا ہے اگر اہل اقتدار اور اہل اختیار ” وصول “ کا معاشرے سے قلع قمع نہیں کر سکتے پھر صائب مشورہ یہی ہے کہ اصول کی جگہ ہر ادارے میں ” وصول “ کو قانونی تحفظ عطا کر کے اسے رائج کیا جا ئے ، عام شہری کو صاف لفظوں میں مطلع کیا جا ئے کہ مظلوم شہری فلا ح ادارے میں ااپنا کام نکلوانے کے لیے اتنا ” وصول “ اہل کاروں کے ہاتھ پر رکھیں وصول کو قانونی طور پر لا گو کر دینے سے کم از کم سر پھر ے شہری ہر وقت بے اصولی اور وصولی کا ماتم تو نہیں کر یں گے بلکہ چپ چاپ اپنے جائز کا موں کے لیے ہر ادارے میں اہل کاروں کی مٹھی چابی کر کے اپنے کام نکلوا لیا کر یں گے ، آپ کیا خیال زریں ہے آپ کس حد تک اس خیال زریں سے متفق ہیں ،ہمارے حکمران اقوام عالم کی خو بو کے گر ویدہ ہیں ، غیر وطن میں رہنا پسند کر تے ہیں انہی ممالک میں ان کے کاروبار حیات ہیں مگر ان ممالک کے انسان دوست قوانین کو پاکستان میں نافذ کر نے کے لیے سنجیدہ نہیں ، کیا یہاں انسانوں کی جگہ بھیڑ بکریوں کا بسیرا ہے ، اپنی رعایا کو بھیڑ بکریاں سمجھنے کے بجا ئے انسان سمجھیں ، ان کی فلاح اور آسانی کے لیے قانون کا چلن عام کیجیے آخر کب تلک عام شہر ی ریاستی جبر سہتے رہیں گے ، کچھ تو خدا کا خوف کیجیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :