”پردھان ادارے مقامی آبادی کو کیسے ماموں بناتے ہیں“

جمعہ 15 جنوری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

شہر اقتدار کے بغل میں اٹک کا ضلع واقع ہے اس ضلع کو آپ شہر اقتدار کا بغل بچہ بھی کہہ سکتے ہیں ،بہت سے سیاسی پر دھانوں کے فارم ہا ؤس بھی اسی ضلع میں واقع ہیں ، مملکت خداد اد پاکستان کے دوسرے علا قوں کی طرح اٹک کو بھی قدرت نے اپنی فیاضیوں سے خوب نواز رکھا ہے، کالا سونا تو گویا اس ضلع کی خاص پہچان ہے اریب قریب بارہ مقامات سے تیل و گیس کے ذخا ئر کئی دہا ئیوں سے چالوہیں ،رب کریم کی اس نعمت سے پورا ملک مستفید ہو رہاہے بس اگر محروم ہیں تو اٹک کے باسی ، جنڈ پنڈی گھیب اور فتح جنگ اٹک کی وہ تحصیلیں ہیں جہاں سے تیل اور گیس کے ذخائر نکل رہے ہیں مروجہ قوانین کے مطابق تیل اور گیس کے اداروں کو اپنی آمد ن کا ایک مخصوص حصہ مقامی آبادی پر خرچ کر نا ہوتا ہے ، واضح طور قانون قاعدے اور ضابطے یہی سبق دیتے ہیں، لگی دہا ئیوں سے مگر یہ ادارے مقامی آبادی کو مسلسل ” ما مو ں “ بنا ئے ہو ئے ہیں ، مقا می آبادی کی سونا اگلتی زمینیں ان اداروں کی تصرف میں چلی گئیں ، تیل کے کنوؤں سے خارج ہو نے والے فضلے سے آلودگی ان علا قوں کے باسیوں کا مقدر بن چکی ہے فضائی آلو دگی کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ان کمپنییوں کے گردو نواح کی زر خیز زمینیں بنجر ہو چکیں بلکہ آلو دگی کی وجہ سے ان علا قوں کے مکینوں میں مختلف قسم کی جلدی امراض بھی ان کی زند گیوں کا لا زمی جز بن چکے ، المیہ کیا ہے ، اربوں کھر بوں کما نے والے یہ ادارے لیکن مقامی آبادیوں پر اپنا زرخرچ کر نے سے مسلسل صرف نظر کیے ہو ئے ہیں ، اربوں کما نے والے تیل و گیس کے ادارے اگر سالانہ دو فیصد بھی اٹک کے باسیوں کی فلا ح و بہبود اور ان کی ترقی و خو ش حالی پر خرچ کر تے آج اٹک پاکستان کا خوش حال ترین ضلع ہوتا ، وسائل کی ریل پیل کے باوجود اٹک کی وسیع آبادی گیس کی سہولت سے محروم ہے ، ہونا تو یہ چا ہیے تھا کہ تیل و گیس کے یہ ادارے اٹک کے باسیوں کے لیے ملا زمتوں میں کو ٹہ مختص کر تے اس حوالے سے بھی اٹک کا مقدر حد درجہ کھو ٹا ہے ، اٹک کے اعلی تعلیم یافتہ نو جوان بے روز گار گھو م رہے ہیں مگر ان اداروں کو مقا می نو جوانوں کا احسا س تک نہیں ، دھانسوقسم کے ان اداروں کی بھا ری بھر کم گاڑیوں کی آمد جا مد سے رابطہ سڑ کیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں ان رابطہ سڑ کوں کی از سر نو تعمیر اور مر مت کے باب میں بھی تیل کے پیداوار کے حامل اداروں کا ” ما ٹھاپن “ ہر کس و ناکس پر عیاں ہے ، پنڈی گھیب جنڈ اور فتح جنگ کا شمار پس ماندہ تحصیلوں میں ہوتا ہے دھن دولت سے پر باش یہ ادارے اگر ان تحصیلوں میں اعلی تعلیم کی بہترین درس گاہیں قائم کرتے آج ان تحصیلوں کے باسیوں کے گو شہ جگر اعلی تعلیم کے حصول کے لیے دوسروں شہر وں میں دھکے نہ کھا تے ، ان اداروں پر عقابی نظر رکھنے والے اخبار نویسوں کے مطابق سالانہ اربوں کھر بوں کما نے والے یہ ادارے اپنی آمدن کا دو فیصد بھی اگر اٹک کے عوام پر خرچ کر تے اس سے اٹک کی محرومیوں کا بہت حد تک ازالہ ہو جاتا ، المیہ کیا ہے ، یہ ادارے تو عوام سے غافل ہیں ہی افسوس مگر یہ ہے کہ عوام کی نما ئند گی کا دم بھر نے والے عوامی نما ئندوں نے بھی ان اداروں کو عوام کی فلا ح کی جانب راغب کر نے کو ئی سنجیدہ کو شش نہیں کی ، حالیہ دنوں میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے تیل و گیس کے پیداوار سے جڑے اداروں کی آڈٹ کا وعدہ عوام سے کیا ہے اگر امین اسلم اپنے اس وعدے کو عملی جامہ پہنانے میں کامران ہو تے اور ان اداروں کو مقامی آبادی کی خدمت کے لیے رام کر لیتے ہیں امید واثق ہے کہ اس سے اٹک کے مقامی باشندوں کے لیے بہت سی آسانیاں پیدا ہو جا ئیں گی ، ، کیا ہی اچھا ہو اگر ان اداروں کو مقامی آبادی کے لیے ملازمتوں کا کو ٹہ مختص کر نے پر بھی راغب کیا جا ئے ، شہر اقتدار کے قرب میں واقع ضلع کا مقدر کب جا گے گا کب اس ضلع کے باسیوں کی فر یاد اہل اختیار سنیں گے ، انتظار کر نے سوا بھلا اس ضلع کے باسیوں کے پاس کو ئی چارہ بھی تو نہیں، ہاں انہی سطور میں عرض کیے دیتے ہیں کہ یہ صرف ایک ضلع کے باسیوں کا نو حہ نہیں ، سندھ بلو چستان کے پی کے میں بھی کم وپیش اسی صورت حال کا رونا مقامی باسی رو رہے ہیں ، حکومت کو اس نیک کام میں آگے آنا چا ہیے ایسے تمام اداروں کا رخانوں اور صنعتوں کو پابند کیاجائے کہ سہولیات اور ملا زمتوں کی فراہمی کے باب میں مقامی آبادی کے لیے کو ٹہ مختص کر یں ، حکومت کی دست شفقت سے مال و متاع کی قر بانی دینے والے مقامی باسیوں کی زند گیوں میں بھی ان اداروں کے طفیل انقلاب بر پا ہو سکے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :