”غیروں سے گلہ کیسا“

جمعہ 5 فروری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

بااثر خاتون کی گاڑی کی زد میں آکر جان سے ہاتھ دھو نے والے چار نوجوانوں کے واقعہ کی دھوم ہر سو ہے دل گر دہ رکھنے والے اس واقعہ کو کسی حد تک مو ضوع بحث بنا ئے ہو ئے ہیں ، طاقت ور طبقے کا قانون کے ساتھ کھلو اڑ پر رائے زنی کا سلسلہ بھی ماٹھے انداز میں جاری ہے ، معاملہ مگر گھوم پھر کر اسی نکتے پر آکر رکتا ہے ، کیا اس ساری ” عوامی ہا ؤ ہو “ کے باوجود طاقت ور قبیلے سے تعلق رکھنے والی خاتون کے خلاف صحیح معنوں میں قانون حرکت میں آسکے گا ، یہاں تو ہمیشہ سے طاقت ور قبیلہ شجر ممنو عہ رہا ہے ، بلو چستان میں ایک ایم پی اے کے ہاتھوں پو لیس اہل کار کا قتل ابھی کل ہی کا قصہ ہے اس کا انجام بخیر مگر کیا ہوا ، کیا ایم پی اے کو سزا ہو ئی ، اسلام آباد واقعہ بھی دیکھ لیجیے گا مٹی پا ؤ آگے بڑھ جا ؤ کی نذر ہو جا ئے گا، طاقت ور طبقہ آخر قانون سے بالا کیو ں ہے ، کسی اور کو دوش دینے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھا نک لینے میں کو ئی حرج نہیں ، عوام میں سے کتنوں نے جاں بحق ہو نے والے لا چار نوجوانوں کے لیے کلمہ حق بلند کیا اس ظلم کے خلاف کہاں کہاں عوام نے عملا ً صدائے احتجاج بلند کی ، طاقت ور طبقے کے ہاتھ میں طاقت کی لاٹھی تھما نے والے ہم خود ہیں ، ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کر نا بھی دراصل ظالم کا ساتھ دینا ہے ، احساس کمتری اور ذہنی غلامی کے ” اوصاف “ نے پاکستانی قوم سے اس کے حقوق چھین رکھے ہیں ، عوامی طبقات کی خاموشی کو عوامی رضامندی سمجھ کر بالا طبقہ بتدریج طاقت پکڑتا چلا گیا اگر طاقت ور قبیلے کا عوامی محاسبہ ہوتا ، قوی یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ زندہ اقوام کی طرح مملکت خداداد میں بھی بڑے سے بڑے طر م خاں قانون سے ” آنکھ مچولی “ کا ارتکاب نہ کر تا، ہو تا مگر کیا ہے ، عوام اسی طاقت ور طبقے کی ہر عوام دشمن ادا بھول کر ان پر صدقے واری ہو تے ہیں ، اسی طاقت ور قبیلے کے آگے اپنی پلکیں بچھا نے میں پیش پیش رہتے ہیں ، عوامی حقوق غصب کر نے والے اس قبیلے کو عوام ہر بار ” رعایتی نمبر ز “ دے کر اپنے سروں پر مسلط کر لیتے ہیں ، کیا جمہو ریت پسند اقوام کی خو بو یہ ہوا کر تی ہے ، کیا جمہو ریت پسند اقوام ذہنی غلامی کے تابع اپنے ضمیروں کے فیصلے کیاکرتی ہیں ، کیا زندہ اقوام تعصب کی عینک لگا کر ملکی اور عوامی مسائل کا جا ئزہ لیا کر تی ہیں ، کیا زندہ قومیں نسلی امتیاز کو سامنے رکھ کر اپنی تقدیروں کے فیصلے کیا کرتی ہیں ، کیا زندہ قومیں قومیت کو ملک پر فوقیت دیا کر تی ہیں ، سوچ لیجیے ، کیا عوامی سطح پر ان سماجی بدعات کا چلن عام نہیں ، کیا عوامی نما ئندوں کے انتخاب میں ذات پات کو تر جیح نہیں دی جاتی ، کیا عوامی نما ئندوں کے انتخاب میں ” برادری “ کے پلڑ ے میں عوامی حمایت نہیں ڈالی جاتی ، کو ئی ایک حلقہ بتلا دیجیے جہاں کے عوام نے خالصتاً اہلیت کی بنا پر ایم این اے یا ایم پی اے کا چنا ؤ کیا ہو ، جب مقتدر ایوانوں کے نما ئندوں کے چنا ؤ کا حق عام آدمی کے ہاتھ آتا ہے عام آدمی امید وار کی اہلیت قابلیت شرافت اور قانون پسندی کے اوصاف کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر تعصب نسل اور برادری کو فو قیت دے کر امید وار کا چنا ؤ کر تاہے ، جب اپنے ہا تھوں اہلیت کاسب سے پہلے قتل آپ خود کر تے ہیں ، اپنے ہاتھ خود کاٹنے کے بعد پھر درد سے تلملا نا کیسا ، ہو تاکیا ہے ، اپنے ہاتھوں اہلیت کا قتل کر نے کے بعد یہی عام آدمی اپنے ساتھ ہو نے والے مظالم پر کڑ ھتا ہے ، ہلکے پھلکے احتجاجی راگ الاپتا ہے ، عوامی چوکوں چو باروں میں دل کا بوجھ ہلکا کر تا ہے مگر عام آدمی کی اس ہا ہا کار کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح صفر بٹا صفر نکلتا ہے۔

(جاری ہے)


حضور ! طاقت ور قبیلے سے زیادہ بڑے ظالم آپ خود ہیں ، طاقت ور قبیلے کے ہاتھ مضبوط کر نے والے آپ خود ہیں ، طاقت ور قبیلے کی ہر قانون شکنی پر مہر بہ لب آپ رہتے ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھو منے والوں پر پھو لوں کی پتیاں نچھاور کر نے کا فریضہ خوشی خوشی آپ سرانجام دیتے ہیں ،آئے گا بھئی آئے گا کے نعرے آپ لگا تے ہیں ، طاقت ور قبیلے کی خاطر مفت کی دشمنیاں آپ پالتے ہیں ، جب ” انتخاب “ کے وقت آپ خود اہلیت کا جنا زہ نکالتے ہیں بعد میں اہلیت کے قتل پر کیوں آنسو بہا تے ہیں ، پہلے خود کو ذہنی غلامی سے آزاد کیجیے ، پہلے خود کو احساس کمتری کے جال سے نکالنے کا علا ج کیجیے ، پہلے خود تعصب اور مفاد کی عینک اپنی آنکھوں سے ہٹا ئیے ، پہلے نسلی امتیازسے اپنے دل کو پاک کر نے کا ساماں کیجیے ، پہلے خودبرادری کی قید سے چھٹکارا حاصل کیجیے ، جب خالصتاً اہلیت قابلیت شرافت دیانت صداقت اور قانون پسندی کے اصولوں پر اپنے نما ئندوں کاانتخاب کر یں گے پھر دیکھ لیجیے آپ کے نما ئندے قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرات نہیں کر یں گے ، جب آپ کے حکمراں قانون پسند ہو ں گے پھر کسی کو عام آدمی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی ہمت بھی نہیں ہو گی ، قانون کی سر بلندی اور قانون پسندی کی ابتدا ء پہلے اپنے آپ سے کیجیے بعد میں دوسروں پر گلہ کیجیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :