”سوال حاضر ہے“

بدھ 31 مارچ 2021

Ahmed Khan

احمد خان

لگے چند سالوں سے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی طرز سیاست سے عوامی سطح پر ایک اکتاہٹ کی سی فضا پھل پھول رہی تھی سیاسی پنڈتوں کا خیال زریں تھا کہ اقتدار صرف مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی میراث نہیں بہت سے احباب مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے اقتدار کے ماہ وسال کو ” یاریاں اور باریاں “ لینے دینے سے تعبیر کر تے رہے ، مسلم لیگ ن سے عوام کی وابستہ توقعات اس طر ح سے منڈے نہ چڑ ھ سکیں شاید جس طرح سے عوام چاہتے تھے پی پی پی کے ارباب اختیار کے بارے میں بھی سیاست کے ہنر کار کچھ ایسے ہی جذبا ت اور خیالات کا اظہار کرتے پا ئے جا تے تھے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی سیاست اور طر ز ہا ئے حکومت کے بارے میں اٹھتے ” بھا پ “ کے دنوں میں تحریک انصاف کے سربرا ہ نے اس ” نکتے “ کو پکڑ کر عوام کے مزاج کو گرمانے کا سلسلہ چل سو چل کیا ، 2008ء سے عوامی چوباروں میں عمران خان کی سوچ کو پذیرائی ملنی شروع ہو ئی 13ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ” ہنر “ اچھلے بھلے انداز میں عوام کو ہم نوا بنا نے میں کا رگر ثابت ہو ئے تمام تر تگ ودو کے باوجود مگر جناب خان اقتدار پر قابض ہو نے سے قاصر رہے ، 18ء کے عام انتخابات تک تحریک انصاف کے اکابرین اور جناب خان مسلم لیگ ن اور پی پی پی پر’ غزنوی “ کی طرح پلٹ پلٹ کر وار کر تے رہے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کو رگید نے کے لیے جناب خان نے ہروہ حربہ ہر وہ حیلہ اختیار کیا جس سے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو زک پہنچ سکتی تھی، عوامی ذہنوں پر تسلسل سے دستک دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 18ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے عوام کا دھارا اپنی طر ف مو ڑ لیا ، جناب خان کے مثالی دعوے اور وعدے عوام کے ذہنوں پر کند ہو چکے تھے کپتان کے اقتدار میں آنے کے بعد عوام کی اکثریت پاکستان کو مثالی ریاست دیکھنے کی آرزو مند تھی عوامی حکمرانی کا خواب عوام کی آنکھو ں میں جلو ہ گر ہ تھا بہت سے دانش وروں کے خیال میں پاکستانی سیاست میں جس ” خرابی بسیار “ نے معمول کا درجہ حاصل کیا تھا کپتان کی حکمرانی میں نہ صرف پاکستانی سیاست اس خرابی بسیار سے کامل طورپر پاک ہو جا ئے گی بلکہ حقیقی معنوں میں عوام کے حقوق کی ” الجھن “ بھی سلجھن کا لبادہ اوڑھ لے گی ، خدا لگتی مگر یہ ہے کہ تحریک انصاف اور کپتان عوامی خدمت کے باب میں ” ککھ “ بھی نہ کر سکے اگر مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی حکومتوں سے تحریک انصاف حکومت کا موازنہ کیا جا ئے ، عوامی حقوق کے باب میں دونوں جماعتوں کا ریکارڈ تحریک انصاف سے کئی درجے بہتر تھا ، ملکی نظم و نسق کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی حکومت کو انصافین حکومت پر بر تری حاصل ہے عوامی حقوق کے باب میں پی پی پی نے بھی تحریک انصاف سے زیادہ نیک نامی کما ئی ، تحریک انصاف کو حکومت میں آئے تین سال ہو نے والے ہیں محسوس مگر یہ ہو تا ہے جیسے تحریک انصاف کے احباب نے کل ہی زمام اقتدار اپنے ہاتھ لیا ہو ، وفاق اور صوبوں میں قائم تحریک انصاف کی حکومتیں ابھی رموز حکومت کو سمجھنے اور سلجھنے سے قاصر ہیں ، وفاق اور صوبوں کی سمت ابھی تک واضح نہیں ، تحریک انصاف کن عوامی تر جیحات کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی اور حکومت میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی تر جیحات کیا ہیں ، عوام تو رہے ایک طرف سیاست پر عقاب کی سی نظر رکھنے والے بھی ہنوز تحریک انصاف کی طرز حکومت کے گورکھ دھند ے کو سمجھنے سے قاصر ہیں ، عوامی حلقوں میں ایک سوال تسلسل سے گردش کر رہاہے وہ یہ کہ ” ہو کیا رہا ہے “ سچ پو چھیے تو تحریک انصاف حکومت کے بارے میں زیر گردش اس سوال کا صد فی صد درست جواب انصافین احباب کے پاس بھی نہیں ، وفاق اور صوبوں میں اک عجب سا ساماں ہے اک علم غلم کی سی کیفیت ہے حکومت کے اعلی دماغ زباں سے کچھ کہہ رہے ہو تے ہیں عملا ً مگر کچھ اور ہو رہا ہو تا ہے عجب سی کشا کش میں عوام کے بنیادی مسائل جو ں کے توں ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے، حالیہ صورت حال بڑی دل چسپ ہو نے کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی ہے اگر باقی ماندہ عرصہ اقتدار میں بھی انصافین حکومت عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے میں نامراد رہتی ہے پھر کیا ہوگا ، کیا عوام پھر سے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی جانب راغب ہو ں گے یا عوام تینوں بڑی سیاسی جماعتوں سے ناطہ توڑ کر کسی اور کے سر اقتدار کا تاج رکھیں گے ، حالیہ دنوں میں ابھرتے ہوئے اس سوال پر آپ دماغ سوزی کیجیے اور محبتوں عنایتوں شکا یتوں کے اس صدا راہ سے مجھے دیجیے اجازت ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :