” نظریات افلاس کی خوراک ہوا کرتے ہیں “

پیر 5 اپریل 2021

Ahmed Khan

احمد خان

تیل کی دولت سے مالا مال ملک کا بادشا ہ شاویز اپنی رعا یا میں حد درجہ مقبول تھا نہ صرف اپنی عایا میں بلکہ افلاس کے ہاتھوں لا چار ممالک کے باسی بھی شاویز کے دلدادہ تھے ، تیل کی دولت سے مالا مال ملک کے بادشا ہ میں ایسی کیا بات تھی جس کے اپنے اور بیگانے سبھی دیوانے تھے ، مو صوف ہفتہ وار اپنی رعایا سے ٹی وی خطاب کر تے اپنے سامنے میز پر اشیا ء خورد و نوش رکھتے عوام سے لگ کھا نے والی ایک ایک شے اٹھا کر اپنی رعایا کو بتلا تے اس شے کا نر خ سرکار کی سطح پر یہ ہے اگر کو ئی دکا ن دار کو ئی تاجر کو ئی ساہو کار سرکاری نرخ سے زائد دام مانگے فوری طور پر سرکار کے کارندوں کو آگا ہ کیجیے ، رعایا اپنے حکمراں سے بس یہی چاہتی ہے کہ دال روٹی کا ساماں حکمراں اس طور سے کرے کہ شاہ و گدا دونوں کے پیٹ کا دوزخ آسانی سے بجھ سکے ، حضرت قائد اعظم کی رحلت کے بعد کتنے سورما سیاست میں آئے کس سج دھج سے تخت نشیں ہو ئے اور پھر کس سر عت سے عوام کی نظر وں سے دھڑام سے گر ے ، بھٹو کا نام آج بھی پاکستان کے کونوں کھدروں میں گونجتا ہے کسی نہ کسی طور کسی نہ کسی واسطے بھٹو مر حوم کاتذکر ہ زبانوں پر آہی جاتا ہے بھٹو کی وارث جماعت کو اس قصے سے الگ کر لیتے ہیں ، بہت سے ایسے بزرگ ایسے ملتے ہیں جن کی لبوں پر بھٹو اور بھٹو کے کارہا ئے نما یاں مچل رہے ہیں ، ایسا کیوں ہے کیا حضرت قائد اعظم اور بھٹو کے درمیاں کے عہد میں کو ئی اور بر سر اقتدار نہیں آیا ، ایسی بات نہیں ، بھٹو نے دراصل عوام کی امنگوں کو اپنی سیاست کا محور بنا یا بھٹو نے عوام کی آسانی کا نعرہ مستانہ بلند کیا ، روٹی کپڑا اورمکان اس نعرے نے بھٹو کو عوام میں نہ صرف مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا بلکہ عوام کی اکثریت بھٹو پر جان نچھاور کر نے لگے ، یک دم سے عوام بھٹو کے دیوانے کیوں بنے ، اس لیے کہ رعا یا کی بنیادی ضروریات یہی ہیں جن کو بھٹو نے اپنی سیاست کا نظریہ بنایا، بھٹو مر حوم کس حد تک اپنے نعرے کو حقیقت کا روپ دینے میں کامران رہے یہ الگ بحث ہے ، اس سے مگر انکار ممکن نہیں کہ صد فی صد نہ سہی بھٹو نے اپنے اس عوامی نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جس حد تک ممکن ہو سکا کام کیا ، اس کے بعد کی سیاست پر نظر دوڑا لیجیے ، بھٹو کے بعد نظریات کا چر چا محترمہ بے نظیر مر حومہ کی زندگی تک رہا ، محترمہ کی ناگہا نی وفات کے بعد تو گویا پاکستانی سیاست سے نظریات گد ھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکے ، پہلے پی پی پی اور مسلم لیگ ن میں اقتدار کے حصول کا معرکہ بر پا رہا خیر سے اب لگے کچھ سالوں سے تحریک انصاف بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکی ، روٹی کپڑا اور مکان جیسے رعایا کے بنیادی مطالبات گویا سیاست کے شاہ سواروں کے ذہنوں سے محو ہو چکے ، جناب خان یعنی قوم کے کپتان جب حزب اختلاف کے سر خیل تھے انہوں نے اپنے ” عوامی دور “ میں روٹی کپڑا اورمکان سے ملتے جلتے عوامی مطالبات کو اپنی سیاست کا مرکز بنا یا اور اسی عوامی طر ز سیاست کے بل پر وہ عوام کے دلوں کی ” ہیما “ بنے ، اقتدار میں آنے کے بعد مگر کپتان اور عوام کا ناطہ پوری قوم کے سامنے ہے ، لب لبا ب کیا ، یہ کہ تینوں سیاسی جماعتیں عوامی نظریات و احساسات کو پس پشت ڈال چکیں ، وطن عزیز کی سیاست نظریات سے نکل کر بس اقتدار کے حصول کی رہ گزر بن چکی ، جو سیاسی جماعت اقتدار میں ہو تی ہے وہ اپنے اور اپنے ” اقرباء “ کے مفادات کے لیے سر گرم ہو تی ہے عوام سے حکمراں جماعت ناطہ توڑ لیتی ہے جو جماعتیں حزب اختلاف کی سر خیل ہو تی ہیں وہ بھی عوام کے مسائل کو اجا گر کر نے کے بجا ئے حکمراں جماعت کو اقتدار سے چلتا کر نے کے لیے داؤ پیچ آزما تی ہیں ، نوے کی دہا ئی کے وسط تک پی پی پی کا جادو ملک کے طول و عرض میں سر چڑھ کر بولتا رہا جیسے ہی مگر عملا ً پی پی پی بھٹو مر حوم کے راستے سے ادھر ادھر ہو ئی زبانی کلا می لا کھ دلوں کو تسلی دیجیے زمینی طور پر مگر پی پی پی کا وجود سمٹ چکا ، مسلم لیگ ن کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی کمی نہ تھی اب مگر کیا مسلم لیگ ن چاروں صوبوں میں اس طرح سے منظم اور توانا ہے؟ تحریک انصاف سے عوام کا ” رومانس “ لگے چند سالوں میں عروج پر رہا اقتدار میں آنے کے بعد مگر تحریک انصاف کی ہمہ گیر یت اور مقبولیت کی جا نچ غیر جانب دار حلقوں سے کروالیجیے ، دراصل مملکت خداداد کے عوام کے بنیادی مسائل بھوک ننگ افلاس بے روز گاری لا چاری گرانی لا قانونیت اور عدم مساوات ہیں جو سیاسی جماعت عوام کے ان بنیادی مسائل کو اپنی سیاست کا محور بنا ئے گی عوام میں اسی جماعت کی ” جے “ نظر آئے گی ، المیہ مگر کیا ہے ، جمہور اور جمہو ریت کے سر خیل اقتدار میں آنے کے بعد آمر بن جا تے ہیں اور عوام کے مسائل سے کامل طور پر لا تعلق ہو جا تے ہیں ، سیاسی جماعتوں کی اس روش بد نے نہ صرف سیاست کو ” خوش نام “ کر دیا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے اس چلن سے جمہو ریت پر بھی عوامی حلقوں میں سوال اٹھا ئے جارہے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :