” وبا کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں “

جمعرات 29 اپریل 2021

Ahmed Khan

احمد خان

کو رونا کی تبا ہ کا ریوں کا سلسلہ لگے سال کے اوائل سے شروع ہوا اور ابھی تک اس وبا کی حشر سامانیاں تھمی نہیں ایک جانب کورونا نے جہاں معاشی اور سماجی طور طریقوں کا ستیا ناس کیا دوسری جانب یہ وبا تواتر سے اپنوں اور بے گانوں کو بھی چاٹ رہی ہے کم وپیش ایک سال کے قلیل عرصہ میں اس بلا ناگہانی کے ہاتھوں کیسے کیسے زندہ جا وداں ہستیاں مو ت کے آغوش میں چلی گئیں ساتھ چھوٹ جانے والوں میں قربت کے رشتوں میں گندھے احباب بھی ہا تھ جھٹک کر موت کے سنگ ہو لیے اور اپنوں کی دیکھا دیکھی بے گانے بھی اس راہ کے مسافر بنے کو رونا سے جاں خلاصی کے لیے دنیا کے تمام ممالک اپنے طور پر ہاتھ پا ؤں چلا رہے ہیں تمام تر دنیاوی حیلوں کے باوجود مگر کورونا سے چھٹکارہ پانے میں ” ترقی یافتہ “ دنیا نامراد ٹھہری ہے وطن عزیز سہ بارہ اس وبا کے نر غے میں ہے ایک بار پھر وطن عزیز کے طول و عرض میں کو رونا کی خوب ہا ہا کار مچی ہو ئی ہے حکومتی سطح پر وبا سے بچا ؤ کا شور و غوغا ساتویں آسماں کو چھو رہا ہے حاکم طبقہ عوام کو کیسے بچا ئے کو ئی آزمو دہ نسخہ ہنوز حاکم طبقے کے ہا تھ نہیں لگا اس افراتفری بلکہ نفسا نفسی کی سی صورت حال میں طبقہ غربا ء کو دو طر ح کے تفکرات دامن گیر ہیں ایک اپنے اور اپنے اہل و عیال کے پیٹ کا ساماں کیسے کیا جائے دوم اس آفت سے کس طر ح سے خود کو مامون رکھا جا ئے ، غربت کی لکیر کے آس پاس زندگی دھکیلنے والوں کی بے احتیاطی تو قدرے آسانی سے سمجھ میں آنی والی ہے مگر کثرت زر کے مر یدوں کی حفاظتی تدابیر سے کھلواڑ ہر باشعور سے ہضم نہیں ہو رہا ، طب اور معاشرت کے ماہرین کا اس امر پر اجماع ہے کہ اس آفت کا کارگر علا ج حفاظتی تدابیر پر عمل پیرا ہو نا ہے ، طبی ماہرین کے مطابق پاکستان کا صحت عامہ کا نظام ” درد سر“ کی بیماری کے علا ج سے لاچار ہے کجا یہ کہ مشکل کی گھڑی میں کورونا جیسی بیماری میں مبتلا ہزاروں بیما روں کا بوجھ یہ نظام بطریق احسن اٹھا سکے سو صحت عامہ کے بگڑے بلکہ لو لے لنگڑے نظام کو دیکھتے ہو ئے طب سے جڑے عوام کا درد رکھنے والے ما ہرین حالیہ آفت سے بچا ؤ کے لیے حفاظتی تدابیر کو ہی صائب تر عمل قرار دے رہے ہیں ، تکلیف دہ امر مگر یہ ہے کہ کو رونا کی ہلا کت خیزیوں کو اپنی آنکھوں دیکھنے کے باوجود عوام کی اکثریت اس سے بچاؤ کی تدابیر کو پا ؤں تلے لتاڑ رہی ہے رمضان کی آمد کے دنوں میں جس طر ح سے کھا نے پینے کی اشیا ء کی خرید اری کے لیے کثرت زر والوں نے بازاروں پر چڑھا ئی کی اس عوامی ” دھکم پیل “ کو الفاظ بیاں کر نے سے قاصر ہیں ، جیسے ہی اب عید سعید کی آمد کے دن قریب ہو تے جا رہے ہیں نت نئے کپڑوں اور عید کے ” لوازمات “ کے لیے ایک بار پھر تمام تر حکومتی ترلوں کو پس پشت ڈالتے ہو ئے بازاروں میں کوے سے کوا چل رہا ہے ، عید کی خریداری کے لیے مر د و زن بازاروں پر ایسے ٹوٹ پڑے ہیں جیسے وطن عزیز میں کچھ ہوا ہی نہیں ، سادابلکہ از حد سیدھا سا سوال ہے اب کے بار اگر نئے کپڑ ے نہ بنے تو کیا عید نہیںآ ئے گی غیر معمولی حالات میں اگر عید کے لوازمات گھر نہ آئیں تو کون سی قیامت بر پا ہو جا ئے گی ، روز ہ تو صبر قناعت اور سادگی کا درس دیتا ہے اس ماہ مبارک میں بالخصوص جب موت ذرا سی بے احتیاطی کے فاصلے پر کھڑی ہو ایسے نازک حالات میں خالصتاً اپنی ” ناک “ کو اونچا رکھنے کے لیے اپنے اور اپنے اہل و عیال کو” آبیل مجھے مار “کے حالات سے دوچار کرنے سے کیاپر ہیز بہتر نہیں ، خود پر ترس کھا ئیے اور دوسروں پر بھی رحم کی رہ اپنا ئیے ، زندگی رہی توانائی رہی تو عیدیں ہزار آئیں گی معمول کے ماہ و سال میں آنے والی عیدوں میں پھر جی بھر کر اپنی خوشیوں کا ساماں کیجیے ، اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت لٹا ئیے جتنا ہو سکے اپنی دولت کی نما ئش کیجیے مگر موجوہ حالات میں صبر کا دامن تھا م لیجیے کہ اس میں نہ صرف آپ کا بلکہ سب کا بھلا ہے اور معاملہ ایسا بھی نہیں کہ جس کی نزاکت سے آپ آگا ہ نہیں ، روزانہ کی بنیاد پر جس طرح سے ہما رے ارد گرد بسنے والے اس وبا کے ہاتھوں ” عاجز “ ہو رہے ہیں سب کچھ آپ کے علم میں ہے بس فیصلہ آپ پر چھوڑئے دیتے ہیں کہ آپ نے وبا کے شہر میں خود کو محفوظ بنا کر ٹھہر نا ہے یا کوچ کر نا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :