” جنگل کا قانون “

بدھ 2 جون 2021

Ahmed Khan

احمد خان

ایک صاحب کا قدرے معروف بنک میں عرصہ دراز سے کھا تہ چل رہا ہے اپنے مالی معاملات کی وجہ سے گاہے گا ہے ان کا بنک آنا جا نا لگا رہتا ہے اسی طر ح ایک دن گئے تو بنک میں کام کر نے والے ایک صاحب نے انہیں ایک نئے اسکیم میں رقم لگا نے کے لیے قائل کر لیا کچھ عرصہ بعد انہیں رقم کی ضرورت پڑی تو متعلقہ بنک کے عملے سے اپنی رقم نکالنے کے لیے کہا عملے نے حکم صادر کیا کہ اگر رقم نکا لیں گے اس صورت ایک تگڑی کٹوتی آپ کی رقم سے ہو گی وہ صاحب تلملا کر منیجر کے پاس گئے منیجر نے ساری رام کہانی سننے کے بعد کندھے اچکا تے ہو ئے نہ میں جواب دیا انہوں نے منیجر سے مطالبہ کیاکہ جس صاحب نے مجھے اس اسکیم میں رقم جمع کرنے کی تر غیب دی تھی ذرا ان صاحب کو بلا لیجیے انہوں نے اس وقت بنک کے کسی ایسے ضابطے قاعدے کے بارے میں نہیں بتلا یا تھا منیجر نے بے نیازی سے جواب دیا کہ وہ صاحب تو کب کا بنک چھوڑ کر جاچکے ، بھلے وقتوں میں شرفاء اپنی جمع پو نجی کے لیے بنکوں کو محفوظ پنا ہ گا ہ تصور کیا کرتے تھے جب بنکا ری کا شعبہ سرکار کے ہاتھوں میں تھا اس وقت تک بنکو ں کے بارے میں عوامی شکا یات نہ ہو نے کے برابر تھیں جیسے ہی حکمرانوں نے بنکوں کو اپنے من پسند ساہو کاروں کے ہاتھوں میں دیا اس کے بعد عوام کی مفادات سے لگ کھا نے والا یہ شعبہ عوام کے لیے طر ح طر ح کی مسائل پیدا کر نے لگا نجی ہا تھوں میں جا نے سے بنکوں کے مالکا ن کے تو وارے نیار ے ہو گئے مگر عوا م کی جمع پو نجی کے ساتھ کھلواڑ شروع ہو گیا نجی بنکوں میں عملے کے تقرر کے لیے کو ئی خاص اہلیت کو مد نظر نہیں رکھا جاتا ،عملے کی تربیت کے باب میں بھی کو رے پن کی شکایات عام ہیں ، نجی بنک کاری میں عوام کے مسائل پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے آئے روز بنکوں کے صارفین کو طر ح طر ح کے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے ، آن لا ئن رقوم کی منتقلی میں صارفین کو بسا اوقات ایسی ذہنی کو فت کا سامنا کر نا پڑ تا ہے جو بیاں سے باہر ہے ، پہلے پہل بے نظیر انکم سپورٹ کے نام پر عام شہر یوں کو لوٹنے کا سلسلہ عروج پر رہا اب فون کر کے بنکو ں کے صارفین کو لوٹنے کا سلسلہ چل سو چل ہے ، ملین ڈالرز کا سوال یہ ہے کہ ایک صارف کے خالصتا ً نجی معلومات آخر کس طر ح سے نو سر بازوں کے ہاتھ لگ جا تی ہیں جن معلومات کے بل پر وہ شہر یوں کے کھا توں پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں ، فون کر کے بنکوں کے کھا تے داروں کو ” ماموں “ بنا کر لو ٹ مار اریب قریب روز کا معمول بن چکی ہے ، تکلیف دہ امر کیا ہے ، یہ کہ نوسر بازوں کے ہاتھوں لو ٹنے والے بنکوں کے کھاتے دار شکایات درج کرواتے ہیں مگر آج تک شہر یوں کی جمع پو نجی پر ہاتھ صاف کر نے والے قانون کی گرفت میں نہ آسکے اور نہ ہی بنک کاری کا شعبہ اس لوٹ مار کی راہ میں بند باندھنے میں کامران ہوسکا ، کچھ ایسی ہی ” بھیڑ چال “ مو بائل کمپنیوں نے بھی اپنا رکھی ہے مختلف مد میں ہر موبائل کمپنی اپنے صارف کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے ، دنیا کے قانون پسند ممالک میں یہی مو بائل کمپنیاں عوام کے حقوق کے مد میں عین قانون کے مطابق اپنے صارفین کو بہترین خدمات فراہم کر رہی ہیں مملکت خداداد میں مگر صارفین کی جیبوں سے اربوں کھر بوں نکا لنے والی کمپنیاں اپنے صارفین کو وہ خدمات فراہم نہیں کررہی ہیں جن کا یہ محنتانہ وصول کر رہی ہیں ، اس سارے قضیے کا نچوڑعالمی ما لیاتی ادارے کے سابق اہم عہدے دار کے جملے میں پنہاں ہے جو اس نے ہما رے ارباب اختیار کے بارے میں کہا تھا ، بنکوں کو نجی ہاتھوں میں دیتے وقت کیا ارباب اختیار نے ساہو کاروں کو عوام کے حقوق کے تحفظ کا پابند بنایا تھا ، کیا ارباب اختیار نے شعبہ بنک کاری کو نجی ہاتھوں میں دیتے وقت صارفین کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے جاندار قسم کی قانون سازی کی تھی ، چلیے اس پر بھی منوں مٹی ڈال لیجیے ، شعبہ بنک کاری کو نجی ہاتھوں میں دینے کے بعد کیا سرکار اس شعبے پر قانون کی نظر رکھنے کی زحمت کر تی ہے ، دراصل ہر دور میں ارباب اختیار و اقتدار کو ہمیشہ اپنے اور اپنے مصاحبین کے مفادات کا پاس رہا ہے ، ہر امر ہر فیصلے میں حکمراں قبیلے نے عوام کے مفاد کے بجا ئے اپنے مفاد کے حصول کو تر جیح دی ، یہی وہ وجہ ہے کہ پاکستان میں نجی شعبہ صارفین کی کھال کھلے بندوں کو کھینچ رہا ہے اس لیے کہ انہیں کو ئی پو چھنے والا نہیں ، ارباب اختیار و اقتدار کی کر م فر مائی سے ہمیشہ سے وطن عز یز طاقت ور گر وہ کی چراگاہ رہا ہے جس ملک میں اختیار کا ڈنڈا صرف دو فیصد کے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہو اس ملک میں عوام کی حالت بھیڑ بکریوں والی ہی ہو گی یعنی جب چاہے بھیڑ یا ان کو اپنی خوراک بنا لے ، عرص بس اتنی سی ہے کہ جنگل کے مکینوں کے بھی کچھ قاعدے کچھ ضابطے ہوا کر تے ہیں اور وہ اس پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگیاں گزارتے ہیں اگر زیادہ نہیں تو کم از کم جنگل جتنے قاعدے ہی نافذ کر لیجیے کہ کچھ تو عام آدمی کی زندگی آساں ہو ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :