”کہنے جاتے تو ہیں ،پر دیکھئے کیا کہتے ہیں“

منگل 29 جون 2021

Ahmed Khan

احمد خان

اندھی طاقت کے زعم میں مست امریکہ کی افغا نستان پر چڑ ھا ئی اور اب ذلت سے پسپائی کے بعد افغانستان کی داخلی صورت حال پھر سے غیر یقینی سی بنتی جا رہی ہے صاحب بہادر کی ذلت بھر ی رسوائی اپنی جگہ مسلم ، انکل سام کے انخلاء کے بعد مگر جس طر ح سے افغانستان کے حالات ترشی کی طرف بڑھ رہے ہیں بہت سے باخبر حلقے اسے بڑے طوفان سے تعبیر کر رہے ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ افغانستان کی لمحہ بہ لمحہ گمبھیر ہو تی صورت حال میں پاکستان کو کیا کر نا چا ہیے ، افغانستان کے ماضی کے غیر ہم وار حالات سے پاکستان نے جتنا نقصان اٹھا یا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے ، ماضی میں افغانستان کے حالات میں فریق بننے سے پاکستان کو کتنا فائدہ کتنا نقصاں ہوا اس سے اہل پاکستان خوب آگاہ ہیں ، افغانستان کے داخلی حالات سے خود کو جو ڑنے کے خوف ناک نتائج گویا ہر ایک پر عیاں ہیں ، ایک وقت وہ تھا کہ نہ صرف افغانستان بلکہ متوازی طور پر پاکستان میں بھی افغان جنگ گویا عروج پر رہی ، افغان حالات کے نتیجہ میں اریب قریب ہماری ستر ہزار معصوم جانیں گئیں ، ایسے بھی ماہ و سال گزرے جب کو ئی دن دہشت گردی کے واقعہ کے سوا نہیں جاتا تھا ، طور خم سے کراچی اور چمن سے واہگہ تک مملکت پاکستان کے شہر اور قصبے دہشت گردی کے لپیٹ میں تھے ، دانا قومیں ہمیشہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو تاہیوں اور نا کامیوں سے سبق حاصل کر کے اپنے مستقبل کا تعین کیا کرتی ہیں ، افغانستان سے جڑے سابقہ تلخ تجر بات کو سامنے رکھتے ہو ئے وطن عزیز کے پالیسی سازوں کو کیا کر نا چا ہیے ، افغان قضیے میں ملک و قوم کی بہتر ی اسی میں ہے کہ ارباب اختیار افغان قضیے سے اپنا دامن کا مل طور پر بچانے کی تدبیر کر یں ، امریکہ کو ہوائی اڈوں کی فراہمی کے باب میں حکومتی سطح پر جس فیصلے کا چر چا ہے افغانستان سے جڑے باقی ماندہ معاملات میں بھی عین اسی طرح کی غیر جانب دار نہ پالیسی پاکستان کے مفاد میں ہے ، افغانستان کے اقتدار پر بھلے بکر براجمان ہو یا زید ، پاکستان کو سارے قصے میں ” ذاتی پسند و ناپسند “ کی پالیسی سے گریز کی راہ اپنا نی ہو گی ، محض زبانی کلا می حد تک نہیں بلکہ عملی طور پاکستان کو ثابت کر نا ہو گا کہ افغان جانیں اور ان کے حالات جا نیں ، دوسرا اہم نکتہ یہ ہے ، پاک افغان سر حد کے بارے میں پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے ” بوجوہ “ ڈھیلی رہی ہے ، افغانستان کے باسی پاکستان میں ایسے داخل ہو تے ہیں جیسے بندہ راولپنڈی سے اسلام آباد عازم سفر ہو تا ہے ، پاک افغان سرحد پر روا رکھی جانے والی اس انوکھی پالیسی کے نتائج از حد خطرناک برآمد ہو تے رہے ہیں ، پاک افغان سر حد پر حفاظتی نکتہ نگاہ سے افغان باشندوں کی باریکی سے نہ تو جانچ کی جاتی ہے نہ ہی ان سے کو ئی خاص پو چھ تاچ کی زحمت کی جاتی ہے ، افغانی باشندوں کی اس قدر آسانی سے وطن عزیزمیں ” آمد “ قومی سلامتی کے حوالے سے بہت سے مسائل کو جنم دے رہی ہے ، سابقہ ادوار میں پاکستان میں دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات رونما ہو ئے ان کے تانے بانے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طور افغان سر زمین اور افغانیوں سے ملتے رہے ، کروٹ بد لتے حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت ہنگامی طور پر پاک افغان سر حد پر ” عقابی پالیسی “ کا نفاذ کرے، ، جس طر ح سے افغان باشندے کھلے ڈھلے انداز سے پاکستان آتے ہیں اس ” عجب دوست “ پالیسی پر سرعت سے سرخ لکیر کھینچ دی جائے ، داخلی سلامتی کے حوالے سے ایک نکتہ جس سے ہر دور کے حکمراں دانستہ صرف نظر کر تے آرہے ہیں ، وہ پاکستان میں مو جود لا کھوں افغان باشندوں کی موجودگی ہے ، ملکی اور داخلی سلا متی کے حوالے سے پاکستان میں کئی عشروں سے موجود یہ افغان باشند ے اب پاکستا ن کی قومی سلامتی اور امن کے لیے ” چلتے پھرتے بم “ بن چکے ، پاکستان کی دشمن ” تکون “ پاکستان میں مقیم ان افغان باشندوں کو ” سہو لت کار “ کے طور پر استعمال کر تے ہیں ، جب راحیل شریف کمان دار اعلی تھے وہ اس نکتے کو بخوبی سمجھ گئے تھے انہوں نے پاکستان میں موجود ان افغانیوں کی اپنے وطن واپسی کے لیے سخت گیر موقف اختیار کیا مگر جیسے ہی وہ کمان دار اعلی کے عہدے سے سبک دوش ہو ئے ، حکمرانوں نے پھراس اہم تر معاملے کو پس پشت ڈا ل دیا ، وطن عزیز کے حالات کیا تقاضا کر رہے ہیں ، یہی کہ حکومت وقت بیرونی اور داخلی دباؤ کو خاطر میں لا ئے بغیر افغان باشندوں کو واپس اپنے ملک کی طرف دھکیلے، شاید آج حکمران قبیلے کی عقل سلیم میں نہ آئے مگر یاد رکھیے اگر وطن عز یز میں دائمی امن چاہیے پھر پاکستان کو افغانستان کے بارے میں کامل طور پر غیر جانب دا پالیسی اپنا نی ہو گی دوم وطن عز یز کو افغان باشندوں سے پاک کر نا ہو گا ، حالات کی ستم ظریفی بیاں کر نا ہمارا کام تھا سو کر دیا دیکھتے ہیں کہ وطن عز یز کے حکمراں معاملات کو کس عینک سے دیکھنے کی زحمت کر تے ہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :