”پھر آپ بغلول ہیں“

منگل 28 ستمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

کچھ دن قبل چند دوستوں نے شرف ملا قات بخشی ملا قات میں حقوق کا تذکرہ چھیڑا اسی باب میں فرمانے لگے کہ اپنے جائز حقوق کے لیے کئی سال تک حکومتوں کے د ر پر حاضری دیتے رہے جب کو ئی امید بر نہ آئی تو ایوان عدل کا رخ کیا قریباً دس سال عدالتوں کے چکر لگا تے رہے نچلی عدالتوں نے ہما رے جائز حقوق کے معاملے کو مان کر ہمارے حق میں فیصلے صادر کیے اس عدالتی فیصلوں کا اثر مگر حکومت کے خود سروں پر نہ ہوا چار و ناچار عدالت عظمی میں گئے عدالت عظمی نے بھی ہمارے حق میں فیصلہ صادر کیا اب ایک سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا عدالت عظمی کا فیصلہ ہاتھوں میں اٹھا ئے خوار ہو رہے ہیں لیکن حکومت کے پیادے عدالت عظمی کے فیصلے کے بعد بھی ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، یہ صرف ایک قصہ درد نہیں بے شمار ایسے مظلوم ہیں جولاکھوں روپے لگا کر عدالتوں میں اپنے حق کے حصول کے لیے لڑ ے مگر عدالتی فیصلوں کے ماوجود طاقت ور حکومتی پیادے عدالتی فیصلوں کو ردی کے کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ، تصویر کا دوسرا رخ بھی ملا حظہ کر لیجیے پہلے تو پیسے اور اختیار کے وصف سے لیس ” قلیل فیصد “ کو اپنے معاملات میں عدالت کا رخ کر نے کی زحمت ہی نہیں کر نی پڑ تی محض ان کے ایک اشارہ آبرو سے ان کے بڑے بڑے ” درد سر “ چٹکی بجا تے حل ہو جاتے ہیں طو عاً کر ھا ً اگر کسی طاقت ور کو عدالت میں جانا ہی پڑے پھر اس کے حق میں آنے والے عدالتی فیصلے پر من و عن عمل ہو جاتا ہے ، تلخ سچ کیا ہے ، مملکت خداداد پاکستان میں اگر سر اٹھا کر آپ جینا چاہتے ہیں پھر آپ کا کروڑ پتی ہونا از حد ضروری ہے آپ کی جیب میں پیسے کا ہونا اولین شرط ہے بس اس کے بعد آپ کو کسی بھی معاملے میں پریشاں ہو نے کی چنداں ضرورت نہیں ، آپ قتل کر یں چوری کر یں سینہ زوری کر یں آپ کا نہ کو ئی فرد کچھ بگاڑ سکتا ہے نہ قانون آپ کا بال بیکا کر سکتا ہے ، حکومت کی سطح پر بھی آپ کی ہر قدم پر آؤ بھگت ہو گی آپ جہاں جا ئیں گے آپ کے پا ؤں کے نیچے اگلے اپنے ہاتھ رکھیں گے حضور حضور کے الفاظ ہر طرف سے آپ کے کا نوں میں رس گھولتے رہیں گے گویا پیسے کے بل پر آپ جو چاہیں کھیل کھیل سکتے ہیں ، جس ادارے کو چاہیں نا کوں چنے چبوائیں کو ئی ما ئی کا لعل آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، نو ے کی دہا ئی سے ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کر نے کے الزامات سربازار ہیں ، پہلے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے رہبروں کے درمیاں یہ کھیل چلتا رہا ، مشرف اقتدار پر قابض ہو ئے تو انہوں نے مالی لو ٹ کھسوٹ کے انسداد کے باب میں دھا نسو قسم کے فر مان جا ری کیے ، نتیجہ مگر آپ کے سامنے ہے ، کپتان تو اسی ” توپ “ کے دہا نے پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے ، ملکی خزانہ جنہو ں نے ہڑ پ کیا ان کے پیٹ سے ملک و قوم کا مال نکالیں گے کسی کی جاں بخشی نہیں ہو گی ، عوام کے مال و متاع پر ہاتھ صاف کر نے والوں کو جیل میں دھکیلیں گے معافی نام کا لفظ میری لغت میں نہیں ، جناب خان کس حد تک کامران ٹھہرے ، کتنوں سے ملکی دولت وصول کر کے قوم کے خزانے میں جمع کیا گیا ، کتنوں کو عبرت ناک سزائیں ہو ئی ، بڑے بڑوں پر مالی بد عنوانی کے مقدمات بنا ئے گئے کچھ پر بنا نے کی شنید ہے لیکن عملاً ” گول چکر “ کا سلسلہ چل سوچل ہوہے ، کیو ں ، اس لیے کہ پیسے کے بل پر طاقت ور مر ضی سے سارے معاملات چلا رہے ہیں عرصہ دراز سے مقد مات چل رہے ہیں اور چیونٹی کی رفتار سے چل رہے ہیں لیکن ان مقدمات کے فیصلے صادر نہیں ہو رہے کبھی ملزم کی بیماری کے نام پر کبھی ملزم کی تیمار داری کے نام پر کبھی وکیل نہ ہو نے کے نام پر کبھی نئے وکیل کے تقرر کے نام پر کبھی وکیل بدلنے کے نام پر طاقت ور پیسے کے زور پر مر ضی کا کھیل کھیل رہے ہیں ، مسلم لیگ ن کے صاحبان نے زرداری اور اس کے قریبی ساتھیوں پر مالی بد عنوانیوں کے مقد مات درج کیے ان مقدمات کا حاصل کیا نکلا ، مشرف نے پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں جماعتوں کی اعلی قیادت کو مالی بد عنوانی کے جال میں پھنسایا نتیجہ مگر پوری قوم کے سامنے ہے ، کپتان نے اقتدار میں آکر مشرف والی چال چلی حاصل وصول مگر بارہ آنے بھی نہیں ، ساری رام کہانی میں قوم کے لیے کیا اخلاقی سبق پنہاں ہے کہ یہ ملک امیروں کا ہے طاقت ور وں کا ہے اختیار کے ڈنڈے والوں کا ہے ، سیدھے سبھا ؤ عرض ہے کہ یہ ملک اور اس ملک کا نظام امیر کا نظام ہے ، ریاست حکومت ادارے آئین قانون اصول سب امیر کے آگے بے بس ہیں ،امیر جب چا ہے جو چاہے جس طر ح سے چاہے اپنی منشا اپنی مر ضی کا کھیل رچا سکتا ہے ، جوغریب لاچار بے کس بے بس ہیں ، ان کے مقدر میں صرف نامرادی ناکامی دفتروں کے دھکے بڑوں کی جھڑکیا ں لکھی گئیں ، آپ اعلی تعلیم یافتہ ہیں ڈھنگ سے بات کر نے کا سلیقہ آپ کو آتا ہے ، حقوق اور فرائض سے آپ آگاہ ہیں آئین اور قانون کی مو شگا فیوں کو سمجھتے ہیں لیکن آپ کی جیب میں سو چھید ہیں ، اختیار کے ڈنڈے سے آپ محروم ہیں ،پھر آپ دیسی معاشرے کے بغلول ہیں آپ بے انصافی پر ماتم کر سکتے ہیں ظلم پر آہ و فغاں کر سکتے ہیں ستم بالا ئے ستم پر آپ چیخ سکتے ہیں معاشرتی نا ہمواریوں پر آ پ رو سکتے ہیں دوسروں کی حق تلفی پر آپ کڑ ھ سکتے ہیں عملا ً مگر اس نظام کے ” کر شموں “ کی راہ میں آپ رکاوٹ نہیں بن سکتے ، کیو نکہ یہ نظام امیر کبیر وزیر اور طاقت ور کے لیے ہے ، یہ نظام اسی طبقہ اشرافیہ کا محافظ ہے یہ نظام انہی خواص کے لیے چھتری ہے ، لگی کئی دہا ئیوں سے کیا تماشا لگا ہوا ہے ہر بار صرف چہرے مہر ے بد ل جا تے ہیں لیکن حالات وہی کے وہی ہیں ، ایسا کیو ں ہے ، اس لیے کہ اس نظام میں عام آدمی کی فلا ح کے لیے کچھ نہیں ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :