حکمرانوں اور عوام کے درمیاں بے زاری کا باعث عمومی طور پر گرانی بنا کرتی ہے حکمراں بھلے کتنے ہی اوصاف حمیدہ سے آراستہ ہو ں جب حکمراں باعث گرانی بنتے ہیں اس وقت عوام اور حکمراں قبیلے میں تیزی سے دوری پیدا ہو تی چلی جاتی ہے سابقہ حکمرانوں کی طرح مو جودہ حکمرانوں سے بھی عوام کی بد دلی کا باعث گرانی ہے ، عوام گرانی کے ہاتھوں گو یا زچ ہو چکے ، قلیل فیصد کے سوا عوام کا ہر طبقہ گرانی کی بنا پر حکمرانوں سے جا ن چھوٹنے کی دعائیں کر رہا ہے ، سوچ کادر کھو لنے والا اہم نکتہ یہ ہے ، کیا حکمران طبقے کی پٹا ری میں گرانی کا تر یاق نہیں ، ایسی بات نہیں حکومت کے ہاتھ میں بہت سے ایسے تیر ہیں جن کے چلا نے سے کما حقہ حد تک گرانی کے جن کو قابو کیا جاسکتا ہے ،چلیے تیل مصنوعات کے باب میں حکومت وقت کی منطق صد ق دل سے قبول کر لیتے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل مصنوعات کی نر خوں کو ” آگ“ لگ جا نے کی وجہ سے چار و ناچار پاکستان کے عوام پر بھی تیل مصنوعات کا بم آئے روز گرانا حکمرانوں کی مجبوری بن چکا ، لیکن چینی کی نرخوں کو جو پر لگے ہیں اس بارے میں حکمران عوام کو تسلی کی کون سی چوسنی دے سکتے ہیں ، چینی کے آسمان کو چھو نے والے نرخوں کو کس خانے میں فٹ کیا جا سکتا ہے، عیاں سی بات ہے ، چینی کی نرخوں کا عالمی منڈی سے کو ئی جو ڑ نہیں ، چینی کی گرانی میں حکومت وقت کی خالصتاً ناقص پالیسیوں اور اقدامات کا دخل ہے چینی کے باب میں سچ کیا ہے ، در حقیقت چینی کی رسد میں حکومت کے اعلی دماغ بر وقت صائب فیصلوں کی قوت سے عاری رہے ہیں ، دوم چینی کے بیوپار سے وابستہ بیو پاریوں کو حکومت وقت کے مہر باں قانون کے نیچے لا نے میں کامل طور پر نامراد رہے اگر چہ چینی بحران کے حوالے سے حکمرانی سطح پر بلند و بانگ طرز کے خوب غبارے چھو ڑے گئے عملا ً مگر حکومت وقت کے ” روشن دماغ “ اس حوالے سے زبانی ہلے گلے سے زیادہ کچھ نہ کر سکے سو اس وقت تیل مصنوعات اور چینی کی نرخوں میں بڑ ھوتری کا مقابلہ زوروں پر ہے اور حکومت لا چاری کی تصویر بنی خاموش تما شائی کا کردار نبھا رہی ہے ، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باب میں عوام کے غم میں گھلنے والے حکمران بجلی کی قیمتوں کو سابق حکومتوں سے جو ڑ جاڑ کر کام چلا نے کی کو ششوں میں جتے ہو ئے ہیں ، قصہ اگر تیل مصنوعات ،چینی اور بجلی کے ابتر معاملات تک محدود ہو تا شاید پھر بھی طو عا ً کر ھا ً ہی سہی عوام ضبط کا بند ھن تھا م لیتے لیکن گرانی کے باب میں ماچس کی ڈبیہ سے لے کر سونے تک کو آگ لگی ہو ئی ہے عوام سے لگ کھا نے والی کو ئی شے ایسی نہیں جس کی قیمت سے عام شہری عاجز نہ آچکا ہو ، مہذب معاشروں میں جب حکمرانوں کے ہاتھوں سے عوام کو آسانی فراہم کر نے والی ” چھڑی “ پھسل جاتی ہے گو یا جب حکمران حق حکمرانی کھو دیتے ہیں تب حکمران اپنی بچی کچھی سیاسی آبرو کو بچا نے کی کاخاطر احتشام سے استعفی عوام کے ہاتھ پر رکھ کر گھر سدھار لیتے ہیں ، مملکت خداداد کی تاریخ لیکن ایسے روشن نظیروں سے مکمل طور پر خالی ہے چو نکہ ہمارے جمہور پسند حکمران عوام کی خدمت کے بجا ئے اقتدار کا لطف دوبالا کر نے اور اپنے ذاتی مفادات کی آب یا ری کے لیے اقتدار پر براجمان ہو تے ہیں سو انہیں عوام کی تکالیف اور مصائب سے کو ئی سروکار نہیں ہو تا نہ انہیں عام آدمی کے درد سر بننے والے مسائل کے حل سے رتی برابردل چسپی ہو تی ہے ، یہی وجہ ہے کہ عوام کے پر زور احتجاج اور ” ہجو“ کے باوجود حکمران تخت کو چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں ہو تے کچھ ایسا ہی قصہ اس وقت بھی چل سو چل ہے، حالیہ عہد کے حکمران اور ان کے مصاحبین کی گرانی کے اہم تر قضیے میں منطق اور سنجیدگی ملاحظہ کیجیے ، جناب خان حالیہ گرانی کے خوف ناک لہر پر اطمینان کا راگ الا پ رہے ہیں ، ان کی ناک کے بال گر دانے جانے والے مصاحبین خاص کے بیانات الگ سے ” افلا طون “ کو مات دے رہے ہیں گر عوام کو لاحق گرانی کی پر یشانی سے نجات نہیں دلا سکتے تو آبرومند انہ راستہ یہ ہے کہ اپنی غلطی تسلیم کر کے گھر جا ئیے اگر ” گھر “ جا نے کا حوصلہ نہیں پھر عوامی معاملات میں ایسے بیان داغیں جس سے کم از کم عوام کی زخموں پر نمک چھڑ کنے کے بجا ئے مرہم رکھنے کا احساس ہو ، بہر طور جس طر ح کے حالات رواں ہیں عہد حاضر کے حکمران قبیلے کی مقدر میں بھی ” عوامی سبکی “ لکھی جا چکی چاہے ہمارا حکمران قبیلہ ما نے یا اس سے نظریں چرائے حقیقت بہر حال یہی ہے،گرانی اور سیاسی بے یقینی کے حالات میں آنے والے دنوں میں کیا ہو تا ہے کو ن سا مہر ہ کس طرف کسکتا ہے آنے والا وقت بہت سے معاملات سے پر دہ سرکائے گا اور خوب سر کا ئے گا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔