”ویسے کچھ زیادہ نہیں ہو گئی“

جمعرات 23 دسمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

سستے ملک کے مہنگے حکمرانوں کو خیبر پختون خواہ کے پہلے مر حلے کے بلد یاتی انتخابات مہنگے پڑ گئے ، بلاشرکت غیر ے جس صوبے کو تحریک انصاف کا گڑ ھ سمجھا جاتا تھا وہ حالیہ بلد یاتی انتخابات میں حکمراں جماعت کے لیے گڑ ھا ثابت ہوا ، جناب شوکت یوسف زئی سمیت کئی وزراء اپنی جماعت کی شکست پر بلبلا اٹھے اب مگر چڑیاں کھیت چگ چکیں ، بلا شبہ تحریک انصاف کی ہار میں مخالف سیاسی جماعتوں کے تگڑے پن کے بجائے گرانی نے اہم کردار ادا کیا ، تحریک انصاف کے ہار میں جو عوامل کارفرما رہے ان میں گرانی کا نمبر پہلا ہے دوسرے نمبر پر حسب سابق تحریک انصاف کو تحریک انصاف کی مخالفت کا معاملہ بھی درپیش رہا لیکن تحریک انصاف کی ہار میں مرکز اور صوبوں کی سطح پر حکمراں جماعت کی رواں عوام دشمن پالیسیوں نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ، تحریک انصاف بے روز گاری کے خاتمہ ، گرانی کی ویرانی اور انصاف کی تیز تر فراہمی کے حسیں وعدوں کے بل پر اقتدار میں آئی لیکن اپنے تینوں اہم وعدوں کو ایفا کر نے میں تحریک انصاف کے صاحب اقتدار و اختیار کامل طور پر ناکام رہے ، پہلی بار اقتدار کے چسکے سے آشنا ہو نے والے وزیروں کبیروں کی ” اداؤں “نے الگ سے اپنا کام دکھا یا ، خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والے وزراء نے اپنے حلقوں میں بسنے والوں کے مسائل سے منہ موڑنے میں اپنی عافیت سمجھی ، اریب قریب تمام وزراء کے بارے میں عوامی زبانوں پر یہ شکوہ سر بازار تھا کہ عوام سے ربط ضبط تحریک انصاف کے کر م فر ما وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں ،اختیار کے نشے میں مست وزراء بس اپنے مصاحبین خاص تک محدود رہے ، حلقوں کے عام باسی کیا سوچتے ہیں انہیں کو ن سے مسائل درپیش ہیں انصاف کے نام لیوا اپنے ووٹر سے دانستہ نا انصافی کا ارتکاب کر تے رہے ، عوام نے اپنے ساتھ ہو نے والی نا انصافی کا بدلہ اپنے ووٹ کے ذریعے حکمراں جماعت سے یوں لیا کہ اب ارباب اقتدار کے پاس اپنی ہار کے اسباب بیاں کر نے کے لیے کو ئی حیلہ نہیں ، خیبر پختون خواہ میں جہاں تحریک انصاف کا طوطی بولا کر تا تھا اگر اس صوبے میں تحریک انصاف کے پا ؤں تلے زمیں سرک گئی پھر پنجاب میں کیا منظر نامہ ہو سکتا ہے ، مسلم لیگ ن سے چاہے لاکھ اختلاف کیجیے حقیقت مگر یہ ہے کہ پنجاب مسلم لیگ ن کا سیاسی قلعہ ہے لگے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن تمام تر حکمرانی خامیوں کے باوجود سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طورپر اپنا سیاسی بھر م قائم رکھنے میں کا مران رہی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب تحریک انصاف کی ” ہوا ‘ ‘نے پنجاب کو بھی پوری طر ح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا ، ساڑھے تین سالوں بعد کیا صورت احوال ہے ، مرکز اور پنجاب کی صوبائی حکومت سے پنجاب کے باسی نالانی اور اپنی نادانی کا کھلے بندوں اظہار کر رہے ہیں کل کلاں جب پنجاب میں بلدیات کا میچ پڑ ے گا سیاست کے نباضوں کے مطابق تحریک انصاف کو پنجاب میں بھی خیبر پختون خوا ہ جیسے نتائج کا سامنا کر نا پڑ ے گا ، زمینی حقیقت کیا ہے ، گرانی سماجی سطح پر عام آدمی کے ساتھ روا ستم اور بے روز گاری یہ وہ تین عوامل ہیں جن کی وجہ سے وقت کے اچھے بھلے ” رستم“ گم نامی کے گڑ ھے کی نذر ہو ئے انہی بنیادی عوامل نے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کو تانگہ پارٹی بنا یا ، گرانی سب کا سانجھا دکھ ہے ، سماجی نا انصافی سب کا سانجھا نو حہ ہے ،بے روز گاری ہر گھر کی دیوار کی اداسی ہے ، حکمران بھلے ایمان دار سہی حکمران لاکھ بھلے مانس سہی جو حکمران رعایا کی بھوک کو ختم کر نے کے لیے اقدامات نہیں کرتا جو حکمران انصاف کی فراوانی کے باب میں نام نہیں کماتا عوام ایسے حکمران سے نظرپھیرنے میں دیر نہیں لگا تے ، خیبر پختون خواہ کے بلد یاتی انتخابات نقطہ آغاز ہے اگر جناب خان اور ان کا ” لشکر “ عوام کے بنیادی مسائل سے اسی طرح رو گر دانی کی راہ پر گامز ن رہا ،دل کے کاغذ پر نوٹ کر لیجیے ،ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کی آزمائش میں اضافہ ہوتا چلا جا ئے گا ،جمہور پر یقین رکھنے والے حکمرانوں کو جمہور کی آسانیوں کے لیے اپنی راتوں کی نیند قربان کر نی ہوگی ، جمہور کی آسانیوں کے لیے وقت کے حکمران قبیلے کو تلخ فیصلے کر نے ہوں گے ، جب تک وطن عزیز کے مہنگے حکمران عوام کے لیے آسانی کا ساماں نہیں کر یں گے جواباً انہیں عوامی غضب کا سامنا کر نا پڑ ے گا، اہم تر سوال مگر یہ ہے کیا حکمران نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت کر یں گے یا پرانی روش پر ہی چلتے رہیں گے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :