حکومتِ عمرانیہ کی احتساب کہانی

پیر 2 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

نیب کی ڈھٹائی کا عالم دیکھئے، ایک جانب ن لیگی راہنماوں،احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی کی ضمانت کی منسوخی یا اسے چیلینج کرنے کے لیئے سپریم کورٹ میں جانے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب نیب کو مطلوب عمران خان، پرویز خٹک، علیم خان، علیمہ خان، فردوس عاشق اعوان، پرویز خٹک، محمود خان، فیصل واوڈا،زبیدہ جلال،زلفی بخاری،خسرو بختیار، چوہدری پرویز الہی اور عاطف خان سمیت حکومت میں شامل کئی دیگر عہدیداروں کے خلاف سرے سے تحقیقات اور انکوائری کو ہی بند کر دیا گیا ہے۔

 
مذکورہ صورتِ حال صاحبِ فکر اور قوم کے لیئے نئی نہیں۔ اس سے قبل بھی قبل عمران خان نے خیبر پختونخوا میں قائم اپنی صوبائی حکومت میں اپنے ہی بنائے گئے احتساب کمیشن کے دفتر کو یہ اعلان کر کے تالے لگوا دیئے تھے کہ خیبر پختونخوا میں چونکہ کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے اور پورے صوبے میں کوئی بھی چور یا کرپٹ نہیں لہذا اس دفتر کی بھی ضرورت نہیں۔

(جاری ہے)

یاد رہے صوبے کے سرکاری محکموں سے کرپشن کا خاتمہ اس محکمے کا منشور و مقصد تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دو ہزار چودہ میں ایک ایکٹ کے ذریعے بنایا جانے والا احتساب کمیشن صرف دو ہزار پندرہ تک فعال رہا۔ 
اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل احتساب کمیشن جنرل ریٹائرڈ حامد خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بھی اس حقیقت کا بر ملا اعتراف کیا تھا انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا اور یہ کہ کرپشن میں ملوث افراد پر ہاتھ ڈالنے کے بعد ان پر صوبائی حکومت کی جانب سے دباو اور پریشر ڈالا جاتا ہے۔

مذکورہ ڈی جی جلد ہی اپنے عہدے سے احتجاجاً مستعفی ہو گئے اور پھر دو سال تک یہ عہدہ خالی رہا۔ احتساب کمیشن خیبر پختوانخوا پورے صوبے میں کسی ایک سرکاری عہدیدار کو کرپشن کے الزام میں سزا نہیں سنا سکا جبکہ اس ادارے پر چار سالوں میں ایک ارب ساٹھ لاکھ روپے سے زائد کے اخراجات تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں صرف ہوئے۔ جبکہ دوسری جانب طرف اس وقت کی صوبائی احتساب کمیشنر سیدہ ژروت جہاں نے بھی خود اپنے ادارے میں کی گئی غیر قانونی بھرتیوں کا بھانڈہ پھوڑا کر اس احتساب کے نام پر کھڑی اس عمارت کو زمین بوس کر دیاتھا۔

 یہ تو اس احتساب ڈرامے کا مختصر قصہ تھا جسے عمران خان نے اپنی صوبائی حکومت کے لیئے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا تا کہ کرپشن ختم کی جا سکے۔ نیب چونکہ پہلے سے موجود ہے اس لیئے وفاقی حکومت میں آتے ہی ایف آئی اے اور نیب کو پابند کر دیا گیا کہ تمام حکومتی عہدیدار اور اراکین پہلے سے انصاف لانڈری میں دھلے ہوئے ہیں لہذا کرپشن کے خلاف ریفرنس صرف اور صرف اپوزیشن راہنماوں کے خلاف تیار کیئے جائیں۔

یہاں ثبوت کے طور پر ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیر میمن کا اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ”عمران خان ان کو بتاتے تھے کہ دیکھو ہمارے پاس سپریم کورٹ کا سابق جج ہے جو نیب کی سربراہی کر رہا ہے، ہے تو یہ ایک آزاد ادارہ لیکن جب میری جماعت میں سے کوئی بات کرتا ہے کہ فلاں کو پکڑ لیا جائے گا، تو ایسا ہی ہوتا ہے، اگلے دن نیب اسے گرفتار کرلیتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو میرے خلاف بات کرے وہ سلاخوں کے پیچھے ہو“ نیب جیسے قومی ادارے کو جس طرح بے دردی سے حکمران اپنے ذاتی اور مذموم مقاصد کے لیئے استعمال کر رہے ہیں اس بات کا بھی یہ ثبوت کافی ہے کہ ابھی تک نیب کی جانب سے جن اپوزیشن راہنماوں کو کئی کئی ماہ کے بعد عدالتوں کی جانب سے ضمانتوں کے ذریعے رہائی ملی ہے نیب ان گرفتار شدگان میں سے کسی ایک کے خلاف بھی کرپشن کا کوئی ثبوت بھی ثابت نہیں کر سکا۔

 
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ملکی قانون میں قتل کے ملزم کے ریمانڈ کی مدت محض چودہ روز ہے لیکن کئی اپوزیشن راہنماؤں کے چار چار ماہ تک ریمانڈ پر رکھا گیا،لیکن نیب کی اس کھلی بدمعاشی پر کوئی بھی ذمہ لینے کو تیار نہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے مطابق پانچ ماہ اڈیالہ جیل میں کوئی نیب اہلکار ان سے ریمانڈ یا تفتیش کرنے نہیں آیا، اسی طرح احسن اقبال سے بھی دوران قید کسی قسم کی تفتیش نہیں کی گئی۔

 نیب اہلکاروں کی اخلاقی گراوٹ اور نیب گردی بھی ذرا ملاحظہ کرتے جایئے، نواز شریف کے بھتیجے عباس شریف نے ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد نیب کے خلاف درخواست دائر کی ہے کہ ان کو گرفتار کرتے وقت ان کی جیب میں اٹھتیس ہزار روپے تھے جو نکال لیئے گئے اور اب مطالبہ کرنے پر بھی واپس نہیں کیئے جا رہے۔ایک اور مثال جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمن کے حوالے سے ہے جنہیں حال ہی میں نیب کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں یہ بھی واضع کیا گیا ہے کہ ان کے چینل نے ''نیب کارکردگی'' کے بارے میں رپورٹس کیوں چلائیں؟۔

یاد رہے میر شکیل کو چونتیس سالہ پرانے ایک اراضی کیس میں نیب نے طلب کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب اسٹبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے ترجمان اے آر وائے ٹی وی چینل کو اربوں روپے کی ٹیکس چوری ثابت ہونے اور ایف بی آر کی جانب سے نوٹس جاری ہونے پر بھی نیب کی جانب سے کوئی”کارروائی“ عمل میں نہیں لائی گئی۔
ماضیِ قریب میں بھی نیب جیسے حساس قومی ادارے کو کس طرح عمران خان کا مدد گار بنانے کے لیئے کوششیں کی گئیں،شاہد خاقان عباسی کے اس انکشاف کے بعد مزید کسی ثبوت یا دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہی،ان کے بقول جب وہ وزیرِ اعظم تھے تو انہیں عدلیہ یعنی ثاقب چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے واضع پیغام ملا کہ”اگر آپ نیب قانون کو چھیڑیں گے تو ہم ریورس کر دیں گے“۔

عباسی صاحب کا مذکورہ انکشاف ان جمہوری قوتوں کو بھی ان کے اس سوال کا جواب ہے جن کا یہ موقف رہاہے کہ نواز حکومت نے اپنے دور میں نیب قوانین میں ترامیم وغیرہ کیوں نہیں کیں؟ 
جج ثاقب نثار صاحب سے یاد آیا دو دن قبل ان کے فرزندِ ارجمند کی انتہائی پرتکلف شادی کی تقریب ہوئی جس میں کروڑوں روپے کے اخراجات آئے،کیا چیئرمین نیب میں اتنی سکت ہے کہ وہ بارہ لاکھ روپے ماہوار تنخواہ لینے والے سابق چیف جسٹس کو اپنے دفتر میں بلا کر پوچھ سکیں کہ ایک ریٹائرڈ جج کے دیگر ذرائع آمدن کیا ہیں؟۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال اور جج ارشد ملک جیسے کرداروں پر مشتمل یہ ہے حکومتِ عمرانیہ کی ”احتساب کہانی“ کی ایک ہلکی سی جھلک۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :