عورت مارچ اور حقائق

جمعہ 6 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

عالمی سرمایہ دارانہ نظام چلانے والوں کے نزدیک عورت کی حیثیت محض ایک’’ پراڈکٹ‘‘ یعنی گوشت کے ٹکڑے کی ہے ،اس نظام نے عورت کے استحصال کو کئی درجہ بڑھا دیا ہے ۔ ایک جانب کمال ہوشیاری سے اپنے اس جرم کو مختلف نعروں اور بیانیوں کے پیچھے چھپا نے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری جانب اپنے ظالمانہ نظام کو وسعت دینے کی غرض سے انہی نعروں کے زریعے اپنی ’’پراڈکٹ‘‘ کی تعداد میں مذید اضافے کے لیئے اپنی ہی پراڈکٹ کو استعمال میں لایا گیا ہے ۔


 سماجی یا شخصی آذادی کے نام پر نعرے لگانے والی اس عورت مارچ کے نام پر ادھم مچانے والی مخلوق کو یہ تک معلوم نہیں کہ ان نعروں کا کسی بھی حوالے سے سماجی یا شخصی آذادی سے دور دور کا تعلق نہیں اور ان نعروں کا فائدہ خود انہیں بلکہ ان کا یہ عمل براہِ راست عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے پاوں مضبوط کر رہا ہے ۔

(جاری ہے)

سرمایہ دارانہ نظام کی آشیر باد سے حال ہی میں دیکھے گئے چند پلے کارڈز پر لکھے نعرے پہلے ملاحظہ فرما لیں پھر آگے بات کریں :
 اکیلی آوارہ آذاد ۔

عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ۔ تمہارے باپ کی سڑک نہیں ہے ۔ اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو ۔ کھانا گرم کر دوں گی،بستر خود گرم لو ۔ لو بیٹھ گئی صحیح سے ۔
 ناچیز ان کے علاوہ کئی دیگر پلے کارڈز پر ایسے نعرے بھی دیکھ چکا ہے جو یہاں قابلِ تحریر نہیں ۔ لیکن اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ اس نوعیت کے سلوگن یا نعروں کا کون سی اور کیسی آذادی سے کیا تعلق بنتا ہے ؟۔

افسوسناک صورتِ حال ہے کہ جس دین اور نظریئے نے عورت کو زمین میں زندہ دفن کرنے کے خلاف آواز اٹھائی،وراثت میں جائیداد کا حق دلوایا،تجارت،سیاست کرنے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی لیکن اسے ’’پراڈکٹ‘‘ نہیں بننے دیا ۔ اسے جو عزت اور احترام دیا اس کی نظیر نہیں ملتی جو دنیا کے دیگر کسی نظریئے اور مذہب میں موجود نہیں ،لیکن مقامِ افسوس ہے ،آج وہی عورت اپنی عزت اور تعظیم کو پسِ پشت ڈال کر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت لگنے والے مذکورہ نعروں سے متاثر ہو کر از خود ’’پراڈکٹ‘‘ بننے پر زورو شور سے تلی ہوئی ہے اور اسی نظریے اور دین کو دقیانوسی کہ کر ہدفِ تنقید بنا رہی ہے جس سے اسے زمین میں زندہ درگور ہونے سے بچا لیا اوردنیا میں عزت دی ۔


گو کہ’’ عورت مارچ‘‘ کی جانب سے ان کے پندرہ نکاتی منشور میں مثبت تجاویز اور مطالبات پیش کیئے گئے ہیں اور ریاست کو ان پر قانون سازی اور عملی اقدامات اٹھانے کو بھی کہا گیا ہے جو ہر لحاظ سے اچھی بات ہے ۔ لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ اس منشور کا عورت مارچ سے تعلق ہی نہیں بنتا نظر نہیں آتا کیونکہ عملی طور پر اور عورت مارچ کے پلے کارڈز پر درج جملے اور عبارتیں اور کچھ اور ہی سمجھا رہی ہیں ۔

اگر تو مذکورہ مارچ کے منشور میں لکھے گئے نکات اور مطالبات ان کے پلے کارڈز، تقریروں اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی دکھائی دیتیں تو بات سمجھ آنے والی تھی مگر اس وقت صورتِ حال قطعی مختلف ہے ۔
عورت مارچ کے نام پر ’’مساوی حقوق‘‘ کی بات کی جاتی ہے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنا ایجنڈا پورا کرتا ہے،لیکن عورت سے پراڈکٹ بننے کے کوششوں میں مصروف اس مخلوق کو شائد اس حقیقت کا ادراق ہی نہیں کہ اگر اسے آذادی نہ ملی ہوتی تو آج اس کی آواز قومی میڈیا سمیت ہر قومی فورم پر سنائی نہ دے رہی ہوتی ۔

اسے اس بات کا بھی علم نہیں کہ پاکستان کی عورت کو اگر مساوی حقوق حاصل نہیں ہوتے تو بے نظیر بھٹو اس ملک کی وزیرِا عظم نہیں بن سکتی تھیں ۔ آج بھی ملک کی پارلیمنٹ ،افواج سمیت ہر سرکاری ،نیم سرکاری اور نجی اداروں میں عورتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں ۔ جہاں ایک جانب ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں تو دوسری جانب مختلف بین القوامی اداروں میں ملک کی نمائندگی بھی کر رہی ہیں ۔


 فیلی لاز کے تحت انہیں پورے حقوق حاصل ہیں ، اگر از خود طلاق لینے کا حق بھی حاصل ہے تو دوسری جانب شریعت کے علاوہ ملکی قانون کے تحت بھی طلاق ہونے کی صورت میں وہ نان و نکتہ لینے کی پوری طرح حق دار ہو چکی ہیں ۔ اپنے آپ کو مردوں کی ملکیت سمجھ کر ان سے آذاد ہونے کے لیئے سال میں ایک صرف مرتبہ عورت مارچ منانے والیاں کا جانیں کہ جس ماں کو روز دیکھنا حج کرنے کے برابر ثواب قرار دیا گیا ہو، بہنوں پر خرچ کرنا بہترین صدقہ ،بیٹی کی اچھی تربیت پر نبیﷺ کا پڑوسی اور بیوی کو مسکرا کر دیکھنے خدا کے راضی ہونے کو قرار دیا گیا ہو،اس دین اور نظریے کوتنگ نظر کہا جا رہا ہے ۔


 کاش کہ عورت مارچ کے پلے کارڈ پر میرا جسم میری مرضی کی بجائے قوم کو یہ دیکھنے کو ملتا ،’’ہم نے مارکیٹ میں بکنے والی کوئی چیز یا ٹی وی پر چلنے والا اشتہار نہیں بننا ،ہم نے اپنے جسموں کی نمائش نہیں کرنی کہ گندی مکھیاں آ کر بیٹھیں ،ہم نے گوشت کا وہ ٹکڑا نہیں بننا جس پر بھوکے کتوں کے نظر ہو،ہم نے اپنے گھر کی ملکہ بننا ہے،غلام کی بیوی نہیں ۔
آخر میں اتنا ہی عرض کروں گا کہ اگر کوئی ابھی بھی ناچیز کے موقف سے متفق نہیں تو اس کے لیئے دعا گو ہوں کہ ربِ کریم اسے بھی ماروی سرمد اور اس کی پیروکاروں جیسی بیٹیاں عطاء فرمائے ۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :