’’کرونا وائرس اوراسکول فیس کا نوٹس‘‘‎

جمعہ 20 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

ایک جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں مخلوقِ خدا کرونا وائرس سے اپنی زندگیاں بچانے کی فکر میں مبتلا ہے، شہر کے شہر لاک ڈاون ہو رہے ہیں ، دنیا بھر میں بڑے بڑے ادارے بند ہو رہے ہیں ، ہزاروں کی تعداد میں انسانی اموات واقع ہو چکی ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تو تو دوسری جانب وفاقی دالحکومت اسلام آباد میں تعلیم دینے کے نام پر قائم پرائیوٹ تعلیمی ادارے بلکہ تعلیم دینے کے نام پر’’ کاروباری ادارے‘‘ والدین کو فیس جمع کروانے کے’’ نوٹس‘‘ بھیج رہے ۔

( حالانکہ ابھی موسمِ گرما کی تعطیلات دینے کا بھی وقت نہیں ) ۔ یقینا اسکول مالکان کا موقف اساتذہ کی تنخواہیں بجلی کے بل اور اسکول بلڈنگ کا کرایہ وغیرہ ادا کرنے پر ہی مبنی ہو گا ۔ لیکن چونکہ اسکول مالکان خالصتاً ایک بزنس کر رہے ہیں اس لیئے وہ بھی مروجہ کاروباری اصول کے تحت نفع کے ساتھ نقصان بھی سہنے کے پابند ہیں اور یہ اصولِ فطرت بھی کاروباری دنیا میں راءج ہے ۔

(جاری ہے)


مادی پرستی کے اس دور میں بات پیسہ کمانے کی ہوس کوئی انہونی بات نہیں لیکن کاروبار کا مذکورہ عالمی اصول بحرحال ابھی بھی اپنی جگہ طے ہے جو تمام تر کاروباری طبقے پر لاگو ہے ۔ اس لیئے’’ اسکول بزنس ‘‘کے تاجر جہاں ماہ و سال فیسوں کے نام پر بھاری رقمیں اینٹھتے رہے ہیں اب زرا خود بھی برداشت اور اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے والدین کو ریلف دیں ۔

گو کہ اسکول مالکان کی چیخیں ضرور نکلیں گی لیکن حالات کا تقاضہ ہے کہ کم از کم ایک ماہ کی فیس معاف یا نہ لینے کا اعلان کیا جائے ۔
’’تبدیلی سرکار‘‘ نے اپنے انتخابی منشور میں زور و شور سے اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام راءج کیا جائے گا تا کہ امیر اور غریب کے بچے یکساں طور پر زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو سکیں ، پی ٹی آئی کے پورے منشور کا تو خیر سے بیڑہ غرق ہی ہو گیا اور سب نے دیکھ بھی لیا کہ عمران خان کے انتخابی منشور کی کون سی شق پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کسی کامیابی کا جھنڈا گاڑا گیا ہے، لیکن کچھ عرصہ قبل پھر ایک اور شوشہ بھی چھوڑا گیا کہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی فیسوں کو کنٹرول کیا جائے گا لیکن حکومت میں موجود دیگر مافیا کی طرح اس پرا ئیوٹ اسکول مافیا کا مقابلہ بھی نہ کیا جا سکا کیونکہ خود حکومت میں کئی ایسے وفاقی اور صوبائی وزیر اور عہدیدار بیٹھے ہیں جن کا یا تو اپنا زاتی یا پھر اپنے قریبی عزیر و اقارب کا تعلیم دینے کے نام پر اسکولوں کا کاروبار چل رہا ہے اور کئی ایک کی بیگمات تعلیم اور اسکول کے نام پر قائم ایسے کاروباری اداروں میں بھاری بھرکم تنخواہیں لے رہی ہیں ۔


ہمیں یاد ہے اپریل دو ہزار اٹھارہ میں اسی پی ٹی آئی نے اس وقت کے چیف جسٹس بلکہ اپنے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا تھا کہ پرا ئیوٹ اسکول مافیا کو موسمِ گرما میں ایڈوانس فیسیں بٹورنے سے روکا جائے جس کے بعد صورتِ حال دیکھنے میں کچھ بہتری نظر آئی لیکن کیا ہی بہتر ہو کہ اس وقت صاحبِ اقتدار عمران خان اب از خود اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ضمن میں اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے عوام سے کیا گیا اپنا انتخابی وعدہ پورا کریں ۔

انہیں اگر اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائیوں سے فرصت ملے تو کورونا وائرس کے خاتمے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی من مانیاں جو از خود ایک وائرس کا روپ دھار چکی ہیں ان کے سدِ باب کے لیئے کوئی سنجیدہ لاحہِ عمل مرتب کریں ، اس سے پہلے کہ یہ وائرس پوری طرح ملک اور معاشرے میں سرایءت کر جائے ۔
پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی لوٹ مار کا یہ عالم بھی دیکھئے کہ کرونا وائرس کے باعث موجودہ ،موسمِ سرما یا موسمِ گرما کی تعطیلات کے باوجود، والدین سے ریگولر یا ٹیوشن فیس کے علاوہ یوٹیلیٹی، جنریٹر، ائر کنڈیشن چارجز، سکیورٹی اور پلاٹ کے چارجز بھی وصول کیئے جاتے ہیں جن کا کسی بھی حوالے سے کوئی جواز نہیں بنتا اس لیئے ایسی اسکول فیس کو غنڈہ ٹیکس کہنا زیادہ بہتر ہو گا ۔


وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود پی ٹی آئی میں شامل ہونے سے قبل اپنے کالموں اور تجزیوں میں پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی من مانیوں کے حوالے سے لکھتے آئے ہیں ،اب وہ صاحبِ اختیار ہیں اور ایسے مواقع بھی بار بار نہیں ملتے انہیں چاہیئے کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنی وزارت کے ماتحت چلنے والے’’ اسکول بزنس‘‘ کی غنڈہ گردی حوالے سے ہی کوئی ایسا کارنامہ کر گزریں جس کا ذکر وہ آئندہ پھر سے اپنے کالموں اور تجزیوں میں فخریہ طور پر کر سکیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :