سیاسی کارکنان اپنے اصل ہدف پر توجہ مرکوز رکھیں

جمعرات 25 مارچ 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود ہی زرا غور فرمائیں کہ گزشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر بلاول بھٹو اور مریم نواز کے حوالے سے جیالوں اور پٹواریوں کے درمیان الفاظ کی شدید جنگ جاری ہے، گویا ایک طوفان سا برپا ہے ۔ دونوں جانب سے تیز و تند جملوں کا تبادلہ اور حد درجہ تنقید جاری ہے بلکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حد درجہ اخلاق سے گری ہوئی ٹیوٹس اور پوسٹس بھی دیکھی گئی ہیں ، تا ہم یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ اس حوالے سے مذکورہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی جانب سے کوئی بھی اخلاق سے گری ہوئی ٹویٹ یا سخت بیان جاری نہیں ہوا ۔


اب اصل بات کی جانب بڑھتے ہیں ،عرض ہے کہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے حالیہ بیانات( بلاول نیا سلیکڈڈ اور مریم نواز کو بلاول نہیں بلکہ پی پی پی کا نائب صدر جواب دے گا) کے حوالے سے گزشتہ دو روز سے جب سیاسی پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے کارکنان کی توپوں کا رخ ایک دوسرے کی جانب ہوا تو ان اصل ہدف یعنی عمران نیازی اور اس کے سہولت کار منظر سے غائب ہو گئے اور سیاسی کارکنان خود ہی ایک دوسرے کی گولا باری کی زد میں آئے اور اپنی توانائیاں ضائع کرنے لگے جو کہ انہیں اپنے مشترکہ ہدف (اشٹبلشمنٹ) کو پہلے کی طرح زیر کرنے میں صرف کرنا چاہیئے تھیں ۔

(جاری ہے)


گو کہ حالیہ برسوں کے دوران ملک کے سیاسی کارکنان میں سیاسی شعور کافی حد تک بڑھا ہے لیکن ابھی مذید سیاسی تربیت کی ضرورت ہے ۔ لوکل اشٹبلشمنٹ کو برطانوی سامراج کی جانب سے عطاء کردہ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ ہتھیار ، جسے برسوں کامیابی سے استعمال کر کے ملک میں عام پبلک، سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنان کی توجہ دائیں بائیں مبذول رکھی گئی تا کہ اصل مسائل یعنی غربت ،تعلیم،روزگار ، صحت کی معیاری سہولیات اور اسی نوعیت کے دیگر بنیادی عوامی مسائل کے خاتمے اور ان کے حل کی جانب کوئی پیش قدمی نہ کر سکے اور ملک میں اشٹبلشمنٹ کی اجارہ داری برقرار رہے کیونکہ جب تک مذکورہ مسائل موجود رہیں گے اس وقت تک لوکل اشٹبلشمنٹ اپنے اور بیرونی آقاءوں کے مفادات کا تحفظ کر سکے گی ۔

یعنی بالفاظِ دیگرجب مذکورہ مسائل حل ہونے اور عوام پیٹ بھر کر روٹی کھانے لگیں تو لا محالہ عام پبلک کی توجہ ان کے حقوق سلب کرنے والوں کی جانب بڑھے گی، نوجوان سیاسی کارکنان کے سیاسی شعور میں اضافہ ہو گا اور وہ وہی آئینی اور قانونی بات کریں گے جس سے اشٹبلشمنٹ کی دم پر پاوں پڑے گا ۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو ایک دوسرے سے نظریاتی اختلاف اور ٹھوس دلائل سے قائل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے،جمہوریت کا تو حسن ہی یہی نظریاتی اور سیاسی اختلاف ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری جمہوریت کش عناصر پر نظر رکھنا  ہے جو سیاسی کارکنان کی اصل قومی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیئے معمولی نوعیت کے ایشوز پیدا کر کے انہیں آپس میں الجھائے اور تقسیم کیئے رکھتے انہیں ان کے اصل ہدف یعنی ان کے بنیادی مسائل کے حل کی کوششوں سے دور رکھتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :