قومی دن منانے کی روایت زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے اورزندہ قومیں بے حس نہیں ہوتیں ،قومی دن اتحاد کی علامت ہوتا ہے ،اور ہمارے ملک میں یہ عنقا ہے ، ہمارابے اتفاقی پر اتفاق ہے، یہ شکر کا دن ہوتا ہے اللہ نے جو نعمتیں اس ملک کو عطا کیں ان کا استعمال قوم و ملک کے مفاد میں ہو ۔آج14اگست کوقوم72 واں یوم آزادی منارہی ہے۔ یہ تجدید عہد کا دن ہوتا ہے ،اپنے مقصد کی تجدید کا دن ،اور جو قوم اپنا مقصد ہی بھول گئی ہو۔
ان بہترسالوں میں سمت ہی طے نہ ہو ئی ہو ۔ہر حکومت کی الگ سمت ہو، دوسری آئے دوسری سمت میں کام کرنا شروع کر دے ۔پاکستان میں کمی ہے تو صرف ایک مخلص رہنما کی ،ایک حقیقی حکومت کی جو اصلاحی ،جمہوری اور اسلامی ہو،سب سے بڑی وجہ ناقص حکمت عملی ہے جو حکومت کے ساتھ بدل جاتی ہے۔
(جاری ہے)
ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ترقی ایک مسلسل عمل ہوتا ہے اسے رکنا نہیں چاہیے ۔
حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر ملکی ترقی کا سفر نہ رکے ،اس کے لیے ایک پالیسی ہونی چاہیے جو بھی اقتدار میں آئے وہ حکومت اس پر عمل کی پابند ہو ۔ایسا کوئی قانون ہونا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل بھی ہونا چائیے ۔
بر صغیر کے مسلمانوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے ۔اللہ سے یہ وعدہ ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اس کو خواب کو پورا ہم نے کرنا تھا ۔
اس وعدے کا احساس تک ہم کو نہیں ہے ہمارے قائد کو اس کا احساس تھا، انہوں نے فرمایا تھا ،ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے زریں اصولوں کو آزما سکیں ۔
اللہ پاک نے جس مقصد کے لئے قائد اعظم کو اس دنیا میں بھیجا تو انہوں نے اپنے اس مقصد کوپورا کردیا۔
قائد اعظم نے پاکستان کو حاصل کیا اب یہ ہمارا فرض تھا کہ ہم تکمیل پاکستان ، پاکستان کو اسلامی ماڈل بنانے،شریعت کے نفاذ کی کوشش کرنے اور پاکستان کی ترقی کے لئے دن رات محنت و مشقت کرتے اگر ہم نے اپنے یہ فرائض پورے کیے ہیں تو ہم آزادی کا جشن منانے کا حق رکھتے ہیں ۔ موجودہ حالات میں تجدید عہد کا دن وہ بھی سادگی سے منانا چاہیے اور اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم حقیقی آزادی کا جشن منانا چاہتے ہیں تاریخ کافخر بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کردار و عمل کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔
کیونکہ اسلام کے نفاذ کے لیے اسلامی قلعہ بنانے کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا ۔
سوال یہ ہے کہ ہم بہتر سالہ جشن کس بات کا منا رہے ہیں،کیا ہم کمر توڑ مہنگائی کا جشن منا رہے ہیں ،جس نے غریبوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے ،ضروریات زندگی نصف آبادی کو میسر نہیں ہیں اور اس کا ہم جشن منا رہے ہیں ہمارے حکمرانوں کو علم ہی نہیں کہ غربت کیا ہوتی ہے نہ ہی وہ بے روزگاری کے عفریت سے آگاہ ہیں ،نہ ہی ان کو آٹا ،چینی،گھی ،دال،سبزی کی قیمتوں کا علم ہے ۔
کیا ہم جشن لاقانونیت منا رہے ہیں ملک میں قانون صرف غرباََ کے لیے ہے۔پیسے والا اختیار والا قتل بھی کر سکتا ہے اور اسے کو ئی خوف نہیں ہے ۔
اس لاقانونیت سے ہمارے اخبار بھر ے پڑے ہیں ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے بے انصافی بکتی ہے (میں نے انصاف نہیں کہا )جس ملک میں عدالتوں میں انصاف نہ ہوتا ہو فیصلوں میں تاخیراتنی کہ زندگی گزر جائے ۔
مقدمات کا فیصلہ نہ ہو۔ہم72سال میں اپنے ملک کا قراداد پاکستان کے مطابق آئین نہ بنا سکے عمل تو دور کی بات ہے اور دل جلانے کو جو آئین تھا اس کا نفاذ بھی انصاف سے نہ ہو سکا ۔
اس بابت ہمارے کچھ دانشور (عقل قل،کل نہیں)کہتے ہیں کہ72سال ایک قوم کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیوں نہیں رکھتے بھائی؟
چین،جاپان،اسرائیل ، بھارت ،فرانس ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے ،ان کی دنیا میں اہمیت دیکھ لیں ترقی دیکھ لیں ہمارے ہاں ترقی معکوس کا سفر جاری ہے ،کیا ہم جشن آزادی منانے کا حق رکھتے ہیں ؟جہا ں چوری، ڈاکہ اور قتل و غارت عام ہو دہشت گردی کا راج ہو ،بدمعاش ہیرو ہوں ،جس ملک میں بیٹیوں کی عزت لٹ رہی ہو اور ان کی شنو ائی بھی نہ ہو ،روز کا معمول ہو اور سزا نہ ملے ،جہاں ذاتی قید خانے ہوں ، کیا ہم اپنے مردہ ضمیر ہونے کا جشن منائیں غرور ،تکبر،جھوٹ پر فخر کر نے کا جشن یا کرپشن ،رشوت ،بے ایمانی و ملاوٹ کا جشن ۔
فرقہ واریت میں جلتے پاکستان کا جشن ،جعلی جمہوریت کا جشن ،ہم کو سوچنا چاہیے اس سے بڑی اور کیا اذیت ہو گی کہ ہم لوڈشیڈنگ کا جشن منائیں۔
سنبھال رکھی ہیں دامن کی دھجیاں میں نے
اگست آیا تومیں جھنڈیاں بناؤں گا
کاش پاکستان سے فرقہ وراریت کا خاتمہ کر کے ، مہنگائی دور کر کے ،لوٹی دولت واپس لا کر ،لوڈشیڈنگ ختم کر کے ، انصاف فوری اور سستا کر کے ،آئین بنا کر یا جو آئین ہے اس کے نفاذ کی ہی کوشش کر کے ،تعلیم ،ہسپتال،ٹریفک نظام ،ٹریفک قانون پر عمل،بے روزگاری کا خاتمہ کر کے جشن مناتے ، ایسے حالات میں جو عوام بنیادی حقوق کے لے ترس رہے ہوں ضرورت زندگی مناسب داموں خرید نہ سکیں ،ایسے میں تو ریاست اپنا مقصد ہی کھو دیتی ہے،بھلا وہ کس طرح آزادی کا جشن منائے؟،جب لاکھوں افرادبے گھر ہوں ،ان کو بے آسرا چھوڑ کر ہم کیسے جشن منائیں ہم کو پنجابی ،سندھی،بلوچی،پشتون وغیرہ ہونے کی بجائے پاکستانی ہونے پر فخر ہوتا تو ہم جشن مناتے ملک میں عدالت آزاد ہو ، ہر کسی کو انصاف برابر ملے۔
اردو کو سرکاری و عدالتی زبان بنادیا جائے۔پاکستان سے رشوت خوری، چوربازاری اور اقرباء پر وری کا خاتمہ ہو اور اسلامی قانون نا فذالعمل ہوتا تو پھر خوب آزادی کا جشن مناتے۔
ہم ہیں قیدی عجب اصغر کہ اگست آئے تو
قید خانے کے دروبام سجانے لگ جائیں
معاشرے میں جو بگاڑ ہے؟معاشرے میں بگاڑ کیوں ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟اور اس کا حل کیا ہے؟ انہیں حل کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟کوئی علم نہیں ہے سب ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں ۔
ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ افراد سے معاشرہ بنتا ہے اس لیے افراد کو پہلے سدھرنا ہو گا ،دوسرا نقطہ نظر ہے کہ اجتماعی نظام ہی بگڑ چکا ہے اسے ٹھیک ہونا چاہیے ۔اس کے لیے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو صرف قوم و ملک کے لیے فیصلے کرے ۔ایک بات یہ بھی ہے کہ ان کے لیے جو کہ رہے ہیں کہ اصلاح کا عمل تدریجی ہونا چاہیے کہ ہم نے غیر مسلموں کی اصلاح نہیں کرنی بلکہ مسلمانوں کی کرنی ہے اسلامی قانون نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اسلام سے دور ہورہے ہیں۔
جو اسلام کے دائرے میں ہے یعنی مسلمان ہے وہ تب تک اسلامی قانون نہیں توڑے گا اگر اس کو سزا کا خوف ہو گا۔کیونکہ برائی میں کشش ہے اس لیے برائی کی طرف انسان کا متوجہ ہو جانا شائد فطری ہے اور اگر اس پر آزادی ہو تو یہی انجام ہونا تھا جو ہوا ہے ،اسے آزادی کا نام نہیں دینا چاہیے ،نہ ہی یہ روشن خیالی ہے بلکہ یہ بغاوت ہے اسلامی قانون و شریعت سے۔
آپ کو اپنا بازو گمانے کی آزادی ہے صرف اتنی کہ دوسرے کے منہ پر نہ لگے ۔
پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے اور اس کی بقا بھی اسلام ہے ، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ایک مملکت قائم کرنا ہمارا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ حصول مقصد کا ایک ذریعہ تھا کہ ہم ایسی مملکت کے مالک ہوں جہاں ہم اپنی روایات اور تمدنی خصوصیات کے مطابق ترقی کر سکیں ،جہاں اسلام کے عدل و انصاف اور مساوات کے اصولوں کو آزادی سے بر سر عمل آنے کا موقع حاصل ہو ۔
دین سے دوری نے نفسانفسی کا ماحول پیدا کر دیا ہے ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جانے لگی ہے ۔
اللہ پاک نے پاکستان کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے یہاں ، وسیع میدان ،پہاڑ،سمندر،صحرا ،جنگل ہیں ۔چاروں موسم ہیں، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں یہ ایک ایٹمی ملک ہے ، اس میں نمک کی دوسری بڑی کان،دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان ،تانبے کی ساتویں ، دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم، اور پیداوار کے لحاظ سے کپاس ،چاول ،آم ،مٹر خوبانی گنا میں خود کفیل اور دنیا میں دوسرے ،تیسرے ،چوتھے نمبر پر ۔
چین پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا، اسے مخلص لیڈر مل گئے پاکستان کی بد قسمتی کہ اسے نہ ملے ۔اسلامی فلاحی ریاست کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ساری نعمتیں اللہ نے پاکستان کو دیں مگر ہم عوام ایک مخلص لیڈر کی تلاش نہ کر سکے ۔جو وطن کے لیے ،قوم کے لیے کام کرے ۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر لیڈروں کی دولت و جائیداد بیرون ملک ہے ۔
پاکستان دنیا میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے 25 ویں اور صنعتی لحاظ سے 55ویں نمبر پر ہے ۔
پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں ۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے زرعی ،صنعتی ،معدنی اورافرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ ساری نعمتیں اللہ نے پاکستان کو دی ہیں ان سے خاطر خواہ فائدہ ہم نے نہیں اٹھایا ۔ملک مسائل کی آگ میں پھنسا ہوا ہے غیر ملکی قرض کے انبار ہیں ۔کمر توڑ مہنگائی نے غریبوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے ،ضروریات زندگی نصف آبادی کو میسر نہیں ہے آٹا ،چینی،گھی ،دال،سبزی کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔
لاقانونیت سے ہمارے اخبار بھرے پڑے ہیں ملک میں انصاف نہیں بے انصافی بکتی ہے ، سودورشوت و سفارش عام ہے،یہاں چوری، ڈاکہ اور قتل و غارت کلچر بن چکا ہے ،بدمعاشوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ہمارے ملک کے یہ حالات کب تک ہم پر سایہ فگن رہیں گے اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے بس دعا ہے ،امید ہے ،او ر امید پر دنیا قائم ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔