اصلاحات بل عوام دوست یا عوام دشمن؟

جمعہ 25 جنوری 2019

Akhtar Sardar Chaudhry

اختر سردارچودھری

بجٹ کسی بھی ملک کے اخراجات اور آمدن کا وہ تخمینہ ہے جو حکو مت اپنی معاشی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے تجویز کرتی ہے۔اب تک کسی بھی حکومت نے ایک بھی بجٹ ایسا پیش نہیں کیا جو عوام دوست نہ ہو ۔بلکہ عوام کے فائدے کے لیے ان کو ریلیف دینے کے لیے ہی بجٹ پیش کیا جاتا ہے ۔اگر ریلیف زیادہ دینا مقصود ہو تو ایک سال میں تین چار بجٹ بھی دیے جا سکتے ہیں ۔

جیسے ہر حکومت عوامی بجٹ پیش کرتی ہے وہ بھی عوام کے مفاد کے لیے بالکل ایسے ہی ہر اپوزیشن عوام کے مفاد میں ہی اس بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتی رہی ہے ۔عوام اپنے منتخب کردہ نمائندوں کو ان کے مفاد کے لیے لڑتے دیکھتے ہیں ۔عوام اس کے باوجود خوش نہیں ہوتی ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے حالیہ منی بجٹ جسے حکومت اصلاحات بل کا نام دے رہی ہے مسترد کر دیا ہے ۔

(جاری ہے)

اپوزیشن جو کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی پر مشتمل ہے ۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں سابقہ ادوار میں ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں ۔یہ بجٹ عوام کے لئے ریلیف ثابت ہو گا یا پھر مہنگائی کا ایک طوفان لائے گا ۔اس کا علم تو چند ماہ میں ہو جائے گا ۔لیکن اپنے نمائندگان کی باتیں سن کر بے چارے عوام عجیب سی صورت حا ل کا شکار ضرور ہو چکے ہیں ۔

ایک کہتا ہے بے روزگاری بڑے گی؟دوسرا کہتا ہے روزگار ملے گا ۔ایک فرماتا ہے تعلیم کا ستیاناس ہوجائے گا؟دوسرا دعوی کرتا ہے تعلیم سب کے لیے عام ہو جائے گی ۔ایک کو مہنگائی کا طوفان محسوس ہوتا ہے دوسرا ریلیف کا نام دیتا ہے ۔
یہ سب وہ کہہ رہے ہوتے ہیں جنہیں مہنگائی اور ریلیف کے صرف نام سننے ہیں انہیں بھگتنا نہیں ہے ۔کیونکہ سب ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ان چیزوں کا گزر نہیں ہے ۔

اس سے عوام کی بے چینی جنم لیتی ہے ۔عوام بھی اپنے اپنے تراشے ہوئے بتوں کے فرمودات کو لے کر ہر دستیاب میڈیا پر شروع ہو جاتی ہے ۔ یہ بات بھی کوئی کم دلچسپ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت میں بہت سے ایسے چہرے ہیں جو سابقہ ادوار میں ان دونوں بڑی جماعتوں کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں ۔اس سیاسی ناٹک نے اب اتنی دلچسپی پیدا کر دی ہے کہ اب لوگ تفریح کے لیے نیوز چینل دیکھتے ہیں ۔

اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے کیونکہ اینکر بھی کچھ کم مزاحیہ نہیں ہوتے ۔اتنی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ عقل وہاں ہی رہ جاتی ہے ۔
 خیر واپس آتے ہیں حالیہ بجٹ کی طرف ۔وفاقی وزیر جناب اسد عمر صاحب نے کہا کہ تین چیزوں کے بغیر پاکستان کی معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی، پہلی چیز اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلانا، دوسری چیز بر آمدات میں اضافہ کرنے اور زراعت اور انڈسٹری کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے، تیسری چیز جب تک سرمایہ کاری نہیں ہوگی معیشت پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے یہ تین بڑے ہدف ہیں، یہ ہم قوم کو بتائیں گے کہ ان میں کیسے بہتری لانی ہے۔ان کی یہ تینوں باتیں قابل توجہ ہیں ۔اگر حکومت نے ان پر فوکس کیا تو یقین کریں وہ دن دور نہیں جب ملک اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے گا اور ایک دن آئے گا کہ ہمیں کسی ملک سے قرض نہیں لینا پڑے گا اور نہ ہی آئی ایم ایف کی منتیں کرنا ہوں گی ۔

اس بات کو ایک عام فرد اچھی طرح محسوس کر رہا ہے کہ ان تینوں اہداف پر وزیراعظم روز اول سے فوکس کیے ہوئے ہے ۔
 وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے منی بجٹ 2019 پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نیا بجٹ پیش نہیں کر رہے ہیں بلکہ اصلاحات پیش کررہے ہیں۔جس کے اہم نکات یہ ہیں۔گھروں کی تعمیر کے لیے 5 ارب روپے کی قرض حسنہ اسکیم ۔زرعی قرضوں پر ٹیکس 39 سے کم کر کے 20 فیصد پر لانے کا فیصلہ۔

فائلرز کے لیے بینک ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم ۔چھوٹے شادی ہالز پر ٹیکس 20 سے کم کر کے 5 ہزار کردیا گیا ہے ۔صنعتوں کے لیے خام مال پر ڈیوٹی میں کمی ۔صنعتی مشینری کے لیے کسٹم ڈیوٹی میں 5 سال کی چھوٹ دی گئی ہے۔نان فائلرز زیادہ ٹیکس دے کر 1300 سی سی گاڑیاں خرید سکیں گے۔سی سی 1800 سے زائد گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی پر اضافہ کر دیا گیا ہے۔
100 سے 200 ڈالرز مالیت کے موبائل فون پر 500 روپے لیوی عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے ۔

موبائل فون کی درآمد پر ایڈوانس انکم ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ ۔موبائل فونز پر 3 ٹیکسز کو ضم کر کے ایک کردیا گیا ہے ۔سٹاک ایکسچینج ممبران پر ایڈوانس انکم ٹیکس ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے ۔اسی طرح اسٹاک مارکیٹ ٹریڈنگ پر عائد ودہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا ہے ۔نیوز پرنٹ پر عائد 5 فیصد ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔سیونگز پر عائد ٹیکس ختم کرنے کا اعلان۔

نان بینکنگ افراد پر سپر ٹیکس ختم کرنے کی تجویز۔انرجی منصوبوں میں سرمایہ کاری 5 سال کے لیے تمام ٹیکسز سے مستثنی قرار دے دیا ہے ۔یہ تو تھے حالیہ منی بجٹ یا بل کے مختصر نکات ہمیں اس پر مزید یہ کہنا ہے کہ اس بجٹ کا ملک کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا جتنے ٹیکسز کم کئے گئے ہیں اس سے ان شا اللہ مہنگائی کم ہو گی۔
 درآمدی خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی اور خاتمہ پیداواری لاگت میں کمی لائے گا۔

عوام کی ایک کثیر تعداد نے نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی ختم کرنے کے اقدام کو سراہاہے۔ایک شکایت دیکھنے میں آئی ہے جو کہ چھوٹے تاجروں کی طرف کی مسلسل کی جا رہی ہے کہ اس منی بجٹ میں حکومت نے چھوٹے تاجروں کو نظر انداز کیا ہے اور ساری مراعات صنعتی شعبے اور بڑے کاروبار کو دی ہیں۔اگر حکومت عام گھریلو ضرورت کی اشیاء کے ایک ریٹ طے کر دے اور ان اشیاء کو مارکیٹ سے غائب ہونے سے یعنی مصنوعی قلت سے بچا سکے تو اس ایک کام کے فوائد عام فرد تک فورا پہنچ جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :