کرونا کے دنوں میں اختلاف کی گنجائش‎

جمعرات 9 اپریل 2020

Ali Asjid Taifoor

علی اسجد طیفور

جمہوریت اختلاف کے بغیر بانجھ ہے۔اختلاف کے بغیر جمہوریت کا حسن ماند پڑ جاتا ہے۔اختلاف جمہوریت کی رگوں میں بہتا لہو یے۔جمہوریت کی عمارت بغیر اختلاف کے عمارت کہنہ بن جاتی ہے۔جمہوریت وہ پھول ہے جس کی خوشبو اختلاف ہے۔جمہوریت وہ آنکھ ہے جس کا نور اختلاف ہے۔اگر اختلاف دشنام طرازی اور بغض میں تبدیل ہو جائے تو وہ معاشرے میں بد اطواری اور بد تہذیبی کو جنم دیتا ہے۔

مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت میں اختلاف کی کبھی گنجائش نہیں رہی۔جس کی وجہ سے جمہوریت پر چار بار ڈاکہ پڑا ۔ملکِ عزیز کی تاریخ کا بنظرِ عمیق جائزہ لیتے ہیں۔ملک کی جمہوریت میں پہلا اختلاف افتخار حسین ممدوٹ اور ممتاز دولتانہ کا تھا۔جب افتخار حسین ممدوٹ مغربی پنجاب کے وزیر اعلٰی بنے تو اس اختلاف نے جنم لیا اور 1950 میں ممدوٹ کا استعفیٰ اسی اختلاف کی مرہون منت ہے۔

(جاری ہے)

اور 1950 سے 1952 تک مغربی پنجاب گورنر راج کے زیرِ نگہداشت رہا۔اس کے بعددوسرا اختلاف ناظم الدین اورغلام محمد کا تھا جو ناظم الدین کی برطرفی کا موجب بنا ۔یہ کیسا اختلاف تھا جو 1958 تک بے دریغ برطرفی کی شمشیر نام نہاد جمہوریت کی رگ  پر چلاتا رہا ۔ ملک عزیز میں پہلا مارشل لاء  بھی اس اختلاف کے باعث ہی نافذ ہوا۔سکندر مرزا اور ایوب خان کے درمیان اختلافات ہی تھے جنہوں نے اسکندر مرزا کو دیار غیر کی ٹھوکریں خانے پر مجبور کیا۔

اس کے بعد بھٹو ایوب اختلافات سیاسی افق پر پیپلز پارٹی جیسی پارٹی کے ابھرنے کا کارن بنے۔ اس کی وجہ دونوں کی مفاد پرستی تھی۔ چشم فلک نے عجب منظر اس ملک کی سیاست میں دیکھا کہ بھٹو اپنے ہی لگائے ہوئے آرمی چیف کے ہاتھوں تختہء دار پر جھول گیا۔ اور بقول حاشر ابن ارشاد ملک عزیز اگلےایک عشرے تک مملکت ضیاءداد میں تبدیل ہوگیا جس کا اثر ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

اس کے بعد ضیاءالحق کی کوکھ سے جنم لینے والے ایک نابغے کو قوم پر مسلط کیا گیا اس فرتوت نے پھر سرے بازار دشنام طرازی اور تہمت پرستی کے ذریعے ناصرف بےنظیر بلکہ نسوانیت کا تقدس پامال کیا۔ مگر کہتے ہیں مکافات عمل بھی کوئی چیز ہے جس طرح میکسیمیلین روب سپئیر نے جھوٹے مقدمات  کے ذریعے لوئس ہفتم اور ملکہ  انٹونیٹ کا سر کاٹا اور اسی ہجوم کے سامنے اسی گلوٹین کے ساتھ اس کا اپنا سربھی کٹا۔

یہ قدرت کا دستور ہے اس پر کسی ذاتی شخص کی اجارہ داری نہیں۔ وہ کہتے ہیں ظلم کو باندی بنایا جا سکتا ہے مگر وقت کو نہیں۔ خیر بات اختلاف کی ہی کرتے ہیں مگر ہم اتنے سنگدل نہیں کہ 12 اکتوبر 1999 کو یوم سیاہ نہ کہیں۔ یہاں ہر بار شخصی انا پرستی اور بغض نے ملک عزیز کو نقصان پہنچایا۔ وہ چاہے لغاری  ہو یا اسححٰق افتخار ہو یا ثاقب نثار۔ہر بار ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر مقدم رکھا گیا اور جمہوریت کا تمسخر بنایا گیا۔

عمران خان نامی شخص آجکل مسند اقتدار پر متمکن ہے ویسے نیازی بھی عجیب چیز ہیں۔ شہرت کی بلندیوں پر جا کر گمنام ہو جاتے ہیں۔ کوثرنیازی ہو یا جنرل نیازی۔ خیر آج کل ایک کرونا نامی وبا نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے چار سو کرونا کی بازگشت سنائی دیتی ہے اس کرو نہ پر جب کل جماعتی کانفرنس بلائی بلائی جاتی ہے تو وہاں ملک کا وزیراعظم اپوزیشن کی بات سنے بغیر اٹھ جاتا ہے۔

  اپوزیشن کے  ساتھ اس لیے نہیں بیٹھنا چاہیے چونکہ وہ چور ڈاکو ہیں مگر اسی عمران کے اردگرد بیٹھے مشیر جوکے املا ک کے پیارے غریب کے دشمن ہیں ان سے خان صاحب کو کوئی خطرہ نہیں ۔کیا کہا تھا پروین شاکر نے" بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی" وقت کاموئرخ جب  تاریخ لکھے گا تو عمران خان کو میرے کارواں لکھے گا مگر ہارے ہوئے لشکر کا اگر عمران خان نے اپنی رعونت کو ختم نہیں کیا۔

عمران خان اختلاف کیجیے مگر بغض نہیں۔موئرخ لکھے گا یہ  وہ وقت تھا جب ضرورت تھی یکجہتی کی مل کر چلنے کی جب اجل کے شعلے ہمارے سروں پر منڈلا رہے تھے۔ جب ہم بحرانوں میں گھرے ہوئے تھے پوری دنیا ڈر کے مارے گھروں میں مقید تھی اور ہمارے وزیر اعظم صاحب اپوزیشن کو چور ڈاکو کہنے سے نہیں کترارہےتھے۔عجب ستم ظریفی ہے! خدارا !وزیراعظم صاحب اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت میں آپ کو قوم کی رہنمائی کرنی ہے آپ نے ٹرمپ کو انسانیت کے ناتے ایران سے پابندیاں ہٹانے کا کہا مگر آپ آج بھی اپنے مالک کی اپوزیشن سے مشاورت نہیں کر رہے معاشی طور پر ہم دیوالیہ  ہونے کے دہانے پر کھڑے ہیں خوف ہماری دہلیزوں پر دستک دے رہا ہے۔

آپ ایک جمہوری ملک کے وزیراعظم ہے آج جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنے کی ضرورت ہے آج اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کی اشد ضرورت ہے وزیر اعظم صاحب آپ کو جمہوری اقدار کو سمجھنا ہوگا ورنہ اب جنرل نیازی کی طرح تاریخ کے مجرم بن جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :