خواجہ سرا پیدا ہونا سب سے بڑا گناہ

پیر 27 اپریل 2020

Aman Ullah

امان اللہ

پچھلے ہفتے کی بات ہے میرے ایک دوست کی شادی تھی تو میں وہاں شادی پر گیا لاک ڈاؤن کی وجہ سے شادی مختصر لوگوں کو بلا کر کی گی تھی جس محلے میں بارات گئی تھی ۔اس کے ساتھ ہی کچھ خواجہ سرا رہتے تھے بارات کو دیکھ کر وہ بھی آگئے میرے پاس ایک کرسی خالی پڑی تھی تو ایک خواجہ سراوہاں آکر بیٹھ گیا کیونکہ کسی نے اس کو ایک روپیہ تک نہ دیا میرے پاس بیٹھ کر پوچھتا ہے بابو کیا کرتے ہو تو میرے ساتھ میرے دوست بیٹھے تھے انھوں نے کہا کہ یہ ماسٹر ہے اور کالم نگاری بھی کرتا ہے تو اس خواجہ سرا نے مجھ سے کہا ماسٹر صاحب ایک بات کہوں آپ تو کالم نگاری بھی کرتے ہیں ماسٹر بھی ہیں یہ بتاؤ کہ خواجہ سرا کو دنیا نفرت کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہیں کیا خواجہ سرا پیدا ہونا گناہ ہے اور جہاں آپ کو اس اللہ نے پیدا کیا ہے ہمیں بھی اسی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پھر یہ فرق کیوں ؟ معاشرے اور سماج میں ہماری عزت وہ نہیں جو باقی لوگوں کو حاصل ہے میں خا موش بیٹھا اس کی باتیں سن رہا تھا تو اس نے مجھ سے کہا ماسٹر صاحب میری بات تو سن رہے ہو میں نے کہا جی سن رہا ہوں ماسٹر صاحب آپ کانام میں نے کہا امان اللہ تو کہتا ہے ماسٹر میرا نام بلو رانی ہے میں نے کہا بلو رانی تم ناچ گانا چھوڑ کر کوئی اور کام کیوں نہیں کرتے جس میں عزت ہو جانتے ہو مجھے وہ کیا جواب دیتا ہے کہتا ہے ماسٹر صاحب ٹھنڈی سانس لیکر عزت ہماری قسمت میں کہا ں اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے آنسو صاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ماسڑصاحب میں دس سال کا تھا تو میرے والد صاحب کو میرے انداز وبیاں سے پتا چلا کہ میں ایک خواجہ سرا ہوں تو اس نے مجھے گھر سے نکال دیا اور کہا کہ خبردار یہاں اب دوبارہ مت آنا ہمارا آپ سے کوئی رشتہ نہیں ہم اپنی عزت تمہاری وجہ سے خراب نہیں کرسکتے میرے بھائی بہنوں نے بھی مجھے نفرت انگیز نگاہ سے دیکھ کر گھر کا دروازہ بند کردیا پر ایک کونے میں کھڑی میری ماں مجھے دیکھ کر رو رہی تھی اور التجا ء کر رہی تھی ایسا نہ کرو وہ کہاں جائے گا کہتے ہیں نا ۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔ماں ماں ہوتی ہیں ماسٹر صاحب میری ماں روتی رہی میرے ابو نے مجھے اپنے ساتھ لیا اور ایک شخص کے پاس لے گیا اور اس سے کہا کہ اس کو میں آپ کے حوالے کرتا ہوں جب میں نے ارگرد دیکھ تو بہت سے خواجہ سرا اس شخص کو مبارک دینے لگے مبارک ہو گرو جی آپ کو ایک اور بیٹا مل گیا میرے ابو مجھے چھوڑ کر چلے گئے میں رونے لگا اور چیخ چیخ کر ابو ابو ۔۔۔کہتا رہا اس گرو نے شفقت بھر اہاتھ میرے سر پر رکھا اور کہا بس میرے بچے آج سے میں ہی تمہاری ماں اور میں ہی تمہارا باپ ہم خواجہ سراوں کا نہ کوئی ماں ہوتی ہے اور نہ ہی باپ اور نہ ہی کوئی رشتے دار اور نہ ہی سماج میں عزت ماسٹر صاحب جب ماں باپ ہی خواجہ سراوں کے لیے گھر کے دروازے بند کر دیں تو پھر گرو ہی ہمیں سہارا دیتے ہیں بلو رانی کی باتیں سن کر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے سب کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے مجھے کہتا ہے ماسٹرصاحب ہماری زندگی تو جانوروں سے بھی بدتر ہے اگر کوئی شخص گھر میں پالتو جانور بھی پالتا ہے نا ۔

۔تو اس کی بھی حفاظت کرتا ہے اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دیتا ہمارا تو جانوروں سے بھی برا حال ہے بازاروں میں نکلیں تو سب کہتے ہیں وہ دیکھو کھسرا جا رہا ہے ہمیں تو نہ ماں باپ پیار دیتے ہیں نہ ہی معاشرہ ہمارا جرم اتنا ہے کہ اللہ نے ہمیں ماسڑصاحب خواجہ سرا پیدا کیا یہ تواللہ کی مرضی اس میں ہمارا کیا قصور ہے ماسٹر صاحب ناچ گانا بھی نہ کریں تو پیٹ کہاں سے پالیں آپ ہی بتا دو …
دنیا میں ایسا کونسا ادارہ ہے جہاں ہم خواجہ سراوں کو نوکری دی جاتی ہواتنے میں بارات کا واپس جانے کا ٹائم ہوگیا میں سارے راستے میں سوچتا رہا کہ خواجہ سرا پیدا ہونا معاشرے اور سماج میں اتنا بڑا گناہ اور جرم ہے کہ اپنے ماں باپ بھی شناخت نہیں دیتے مغل بادشاہوں کے زمانے میں محل سرا کے اندر زنان خانے میں گھریلوخدمات دینے والے کو خواجہ سرا کہا جاتا تھا خواجہ سرا بنیادی طور پر ترک زبان کا لفظ ہے یہ چوبدار ، داروغہ جیساشاہی دربار کی جانب سے مقرر کیا جانے والا شاہی محل کا ایک عہدہ تھا یہ خواجہ سرا بیگمات کے کام اور ان کی سیکورٹی کے زمہ دار ہوتے تھے اور آج ان کو معاشرہ اور سماج تنگ نظر سے دیکھتا ہے ۔

میرے سب سے درخواست ہے انکو بھی عزت دو ان کو بھی معاشرے میں جینے کا حق ہے اگر حکومت پاکستان ان کو بھی نوکری دیں تو ہو سکتا ہے یہ ناچ گانے کو چھوڑ کر باعزت زندگی سنوار سکیں ۔ میرے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش ہے کہ خواجہ سراوں کو بھی نوکریاں دی جائیں۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :