نگران حکمرانوں کا امتحان

پیر 23 جولائی 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

چند روز بعد پاکستا نی قوم اپنی تا ریخ کے اہم ترین انتخابات میں ووٹ ڈالنے جا رہی ہے ۔ یہ عام انتخاب اس لحاظ سے تا ریخی اہمیت کے حامل ہیں کہ مسلسل دو جمہوری ادوار اپنی آئینی مدت پوری کرکے تیسری منتخب جمہوری حکو مت قائم ہو نے جا رہی ہے۔ امید کی جا تی ہے کہ جب نو منتخب حکو مت پا کستان کی ”پلا ٹینیم جو بلی“منا رہی ہو گی تو ملک میں جمہو ریت کی روایت مزید مضبو ط ہو چکی ہو گی ۔

فقط چند ہی دن 25جو لا ئی کے عام انتخا با ت میں با قی ہیں مگر ابھی تک بہت سارے خدشا ت اور اندیشے اس حوالے سے عوام میں پا ئے جا تے ہیں ۔ سب سے بڑا سوال جو لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہا ہے وہ نگران حکومت کی غیر جا نبداری کے متعلق ہے ۔ کیا نگران حکمران شفاف ، غیر جا بندارانہ ، منصفانہ ، اور آزاد انہ الیکشن کرواسکیں گے؟ موجودہ انتخابا ت ایک طرف یہ نگران حکمرانو ں کی صلا حیتوں اور غیر جا نبداری کا بھی کڑاامتحان ہیں ۔

(جاری ہے)

تمام سیا سی جما عتوں کو اپنا پیغام پہنچا نے اور نقل و حرکت کے برابر مو قع فراہم کر نے میں اب تک یہ نگران حکومت کا میا ب نظر نہیں آرہی ہے ۔ واضح طور پر ہر صوبے میں ایک سیا سی گروہ محبوب اور با قی سیا سی جما عتیں معتوب نظر آتی ہیں ۔
موجو دہ ما حول میں ہو نے والے عام انتخا ب کے نتا ئج کو کیا عوام اور سیا سی قائدین تسلیم کر لیں گے؟ اگران انتخا با ت کے نتا ئج تسلیم نہ کیے گئے تو یقینامعاملا ت احتجا ج کی طرف جا ئیں گے۔

ایک طویل سیا سی عدم استحکام اور بے چینی ۔ کیا ملکی معیشت ایسے سیا سی خلفشا ر کی متحمل ہو سکتی ہے؟ امن و اما ن کی صورت حا ل جو پہلے ہی وگر گوں ہے مزید خراب ہو سکتی ہے۔ یہ پیش گو ئی کر نے کے لیے آئین سٹا ئن کے دما غ کی ضرورت نہیں ہے کہ عام انتخا بی نتا ئج کو مسترد کر دیں گے۔ اگر نگران حکمرانوں کے زیر نگرانی دھا ندلی کی گئی تو پا کستان کو شدید نقصا ن ہو گا ۔

ان نقصا نا ت کی جہتیں اور شدت طے کر نا اس وقت شاید مشکل ہے اندازہ ضرور لگا یا جا سکتا ہے ۔ طویل عدم استحکام اور سیا سی خلفشا ر دھا ندلی زدہ الیکشن کی صورت میں دو ر تک جا تا نظر آتا ہے۔
گزشتہ انتخا بات 2013 ء کی نگران حکومت کی مثال ہما رے سامنے ہے، پنجاب کی با ت کریں تو نگران وزیر اعلی نجم سیٹھی کی تقریر سیا سی قیا دت کی طرف سے بڑ ی حد تک متفقہ طور پر کی گئی تھی۔

پیپلز پا رٹی نے ان کا نام تجویز کیا تھا، مسلم لیگ (ن)اس پر آما دگی ظا ہر کی تھی اور عمران خان کے گھر جا کر نجم سیٹھی نے ان کا آشیر با د حا صل کر کے نگران وزارت اعلی سنبھالی تھی۔ مگر ان عام انتخا با ت کے نتا ئج آئے تو آصف زرداری نے آر ۔ او۔ الیکشن کی صدا بلند کر دی اور عمران خان نے اس با بت”35 پنکچر “کو بنیا د بنا کر طویل احتجا ج کیا اور دھر نا دیا ۔

قابل تشویش با ت یہ ہے کہ اس مرتبہ تو ڈاکٹر حسن عسکر ی رضوی کی تقریر تو روز اول سے ہی متنا زعہ ہے ۔ ان پر جا نبداری کا الزام ہے ۔ پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ (ن)الیکشن سے قبل ہی ان پر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔
نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کا واحد مقصد شفاف اور آزادانہ ما حول میں منصفانہ طور پر عام انتخابات کا انعقا د ہے ۔ ایک ایسی فضا جس میں نگران اداروں کی غیر جا نبداری نظر آئے۔

یہ ان کا فرض منصبی ہے جس سے کسی طور پہلو تہی نہیں کر نی چا ہیے ، ورنہ تا ریخ اور آئندہ آنے والی نسلیں انہیں کبھی معاف نہیں کر یں گی۔
پاک فو ج کا عام انتخا بات میں کردار متعین اور محدود ہے۔ پر امن فضا قائم کیے رکھنا، شر انگیزی اور تشدد کی صورت میں امن و امان کی بحالی ۔ افواج پاکستان کی شیہ ہر صورت حال میں سیا سی طور پر ایک غیر جانبدار ادارے کی ہو نی چا ہیے،پاکستانی قوم کے ایک مشترک اور غیر متنا زعہ ادارے کے طور پر فوج کا یہ امیج اسی صو رت میں قائم ہو گا ، اگر پولنگ اسٹیشن پر وہ صرف اپنے آئینی کردار تک خو د کو محدود رکھیں گے ۔

پا کستانی فوج کسی ایک سیا سی جما عت یا کسی دوسرے سیا سی دھڑے کی فو ج نہیں ہے ، یہ 22 کروڑ عوام کی فوج ہے۔ جس طرح پاک سرزمین کا ہر گو شہ اس کے لیے پیارا ہے، جس کی حفا ظت اس کا فرض ہے ، با لکل اسی طرح پاکستان میں بسنے والا ہر شہری اس کے لیے برابر اور اس کی حفا ظت فر ض منصبی ہے، چا ہے شہری کا تعلق کسی بھی سیا سی پارٹی سے ہو۔
جمہوریت کو ئی آئیڈیل نظام حکومت نہیں ہے۔

اس میں بہت سا ری خرابیا ں پا ئی جا تی ہیں ، مگر سینکڑوں سال کے انسانی سماج میں ارتقا ء کے نتیجے میں سامنے آنے والے سیا سی نظاموں میں سے جمہو ریت ہی سب سے بہتر ریا ستی انتظام ہے جو کہ ستیاب ہے۔ مستقبل میں ہو سکتا ہے دنیا میں جمہو ریت سے زیا دہ اچھا کو ئی نظام حکومت دریا فت ہو جا ئے ، مگر حال کی گھڑی تک تو یہی طرز حکومت ہے جو تین ہزار سال کے انسانی ارتقا ء نے سب سے بہتر تشکیل دیا ہے ۔ اس وقت دنیا کے سب سے زیا دہ ترقی یا فتہ پچاس ممالک کی فہرست دیکھیں تو سب میں یہی نظام رائج نظر آتا ہے ، ہماری ترقی بھی جمہوری طرز حکومت میں ہی ممکن ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :