پاک فوج سے محبت کی لازوال داستان

جمعرات 23 جولائی 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

یہ بات حقیقت ہے کہ جنگیں افواج نہیں قومیں لڑا کرتی ہیں۔ پاکستان کے قیام کی بات ہو  یا  1948  کے معرکے کی پاکستان کی غیور عوام نے پاک فوج کا ہمیشہ ساتھ دیا ۔1965 کی جنگ میں لاہور  اور سیالکوٹ کے  محاذ پر  خصوصی  طور پر فوج کے ساتھ ساتھ شہریوں کی خدمات قابل قدر ہیں۔ 1971 کی جنگ میں عوام نے فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔1999 کی کارگل کی جنگ میں ہم نے دیکھا کہ  لوگوں نے دل کھول پاک فوج کی حمائت  کی۔

2005 کے زلزلے میں  بھی عوام کی خدمات قابل فخر ہیں۔صاحب استطاعت لوگوں نے خیمے اور خوراک کے پیکٹ بڑی تعداد میں  متاثرہ لوگوں  تک پہنچائے۔ حالیہ دہشت گردی کی جنگ میں بھی ہمارے محب وطن قبائلی عوام کی خدمات اور قربانیاں  سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ جنوری 2014 میں  وطن عزیز پر اپنی جان قربان کرکے مادر علمی اور سینکڑوں طالب علموں کی زندگیاں بچانے والے ایک  طالب علم  اعتزاز حسن نے  شجاعت اور قربانی کی عظیم مثال قائم کی  اور  تعلیم دشمن دہشت گردوں کو پیغام دیا کہ وہ قوم کے بچوں سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

(جاری ہے)

مسلح افواج اور عوام کے درمیان محبت کا رشتہ اگرچہ ہر دور کی ضرورت رہا ہے مگر پاکستان کے موجودہ حالات میں تو اس رشتے کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ پاکستان کی
 سا لمیت کے مخالف تمام عناصر، تمام قوتیں محبت کے اس رشتے  کو کمزور کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔مودی سرکار نت نئے طریقوں سے پاکستان میں قیام امن کو نقصان پہنچا رہی ہے۔اس کی تازہ مثال کراچی میں سٹاک ایکسچینج پر ہونے والا دہشت گردوں کا   ناکام حملہ ہے۔

ملک دشن عناصر  اور سوشل میڈیا کے   ضمیر فروش سازشی ٹولے بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ ان حالات میں ایسے لوگ لائق صد تحسین ہیں جنہوں نے اپنے کردار سے یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے عوام اپنے وطن کی محافظ مسلح افواج سے بے پناہ پیار کرتے ہیں اور ہر قدم پر ان کی پشت پر ہیں، اس سلسلے  میں ایک بڑی مثال لاہور کے غازی میاں اعجاز احمد مرحوم  کی ہے جن کا پاک فوج کے ساتھ رشتہ ان کی وفات تک اتنا مضبوط رہا کہ انہیں ایک فوجی کی حیثیت سے یا د کیا جاتا ہے۔

پاک فوج کے ترجمان رسالہ   "ہلال" میں کرنل خواجہ وحید نے جب میاں اعجاز کی  پاک فوج کے لئے محبت، جانثاری اور عملی تعاون کا تذکرہ کیا  تو  جی ایچ کیو  راولپنڈی سے خاص طور پر  27 مارچ 1979   کو میاں اعجاز احمد کی محبت کے حوالے سے اعترافی خط لکھا گیا۔اور ان کی خدمات کو سراہا گیا۔میاں اعجاز احمد کے لئے پاک فوج کا یہ ابتدائی جذبہ ایک خاص پس منظر رکھتا ہے عوامی حلقوں کی طرف سے پاک فوج کے لئے محبت کے اظہار کا آغاز یوں ہوا کہ 1971کی پاکستان بھارت جنگ سے پہلے کے رمضان المبارک میں میا ں اعجاز احمد اپنی خاندانی حب الوطنی کے پس منظر میں ایک دن اٹھے، افطاری کا سامان خریدا اور راوی پارآرمی کی ایک  یونٹ "ساتھ ساتھ"  کے پاس جاکر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔

عام طور پر آرمی کی طرف سے اس طرح کی دعوت قبول نہیں کی جاتی، لیکن یہ میاں اعجاز احمد کا جذبہ حب الوطنی  تھا اور ان کے دلی خلوص، ان کی آنکھوں کی چمک اور ان کے چہرے کی رونق  سے کچھ ایسا منظر ابھرا کہ رجمنٹ کے انچارج کمانڈنگ آفیسر نے اجازت دے دی کہ جوان میاں صاحب کے ساتھ افطاری کرلیں۔بس وہ دن اور عمر عزیز کا آخری دن میاں اعجاز احمد اس رجمنٹ کا عزیز حصہ بن کر ر ہ گئے، پہلی افطاری  کےتعلق کے بعد پاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو میاں صاحب ہر قدم پر پاک وطن کے جانثاروں کے ساتھ ساتھ تھے یہ رجمنٹ دشمن سے  نبردآزما تھی،اور میاں صاحب گویا عوام کی  علامت بن کررہ گئے تھے جو دشمن سے  نبردآزما  ا ور فوجیوں کے حوصلے  بلند کرنے کا باعث تھی، اس جنگ میں میاں صاحب اگلے مورچوں کی طر ف رواں دواں رہتے۔

ا ن کی آنکھوں میں  غازیوں کا وطن کی حفاظت کے لئے پر جوش انداز میں جھپٹنا  اور شہیدوں کا جان نثار کرنا گویا سب کچھ محفوظ   ر ہا اور وہ اس کا اکثر  ذکر  کرتے رہے۔ میاں صاحب نے جنگ کے دوران اگلے مورچوں میں رہ کر اپنی رجمنٹ کا حصہ بن کر دکھایا اور ضرورت پڑی تو فائر کا جواب  بھی بھرپور انداز میں اور ایک مجاہد غازی کی حیثیت سے دیا۔اور قرون اولی کے مجاہدین کی یاد تازہ کر دی۔

آج کل مغربی طاقتیں مسلمانوں کو جذبہ جہاد سے دور کرنے کے لئے بےشمار کوششیں کر رہے ہیں۔مگر ہماری  بہادر قوم اپنے اسلاف کی گرانقدر خدمات کو رائیگاں نہیں جانے دے گی اور آنے والے دنوں میں بھی جرات اور بہادری کی ایسی داستانیں رقم کرے گی جن پر آنے والے لوگ فخر کر سکیں گے۔
اس جنگ کے بعد جب حالات نارمل ہوئے اور رجمنٹ کینٹ ایریا میں آگئی تو کچھ عرصہ بعد کمانڈنگ آفیسر نے میاں صاحب کو باضابطہ یونٹ کے وزٹ کے لئے دعوت دی اور میاں صاحب نے دعوت قبول کرتے ہوےً یونٹ کارخ کیا،  اب میاں صاحب کاخلوص یونٹ کے ہر آفیسر اور ہر جوان پر واضح تھا۔

چنانچہ باہمی محبت کے روح پرور مناظر سامنے آئے،اس وزٹ میں میاں صاحب کو پہلی آفیشل شیلڈ سے بھی نوازا گیا۔اس پہلے وزٹ کے بعد تو پھرایسا باہمی رشتہ استوار ہوا کہ مذکورہ  یونٹ  برف پوش پہاڑوں پر یاکسی ریگستان میں بھی ہو میاں صاحب اپنی جان اور صحت  کی پرواہ کیے بغیر وہاں پہنچے۔اور یونٹ کی تقریبات اور بڑے کھانوں میں حصہ لیا۔میاں اعجاز ا حمد کی آرٹلری سے  بے لوث محبت، وابستگی اور خدمت کے باعث1981میں آرٹلری ڈائریکٹو ریٹ نے ان کو  "فرینڈ آف
آرٹلر ی"  کے اعزاز سے نوازا۔

اور ایک یاد گار ی شیلڈ بھی  دی ۔ میاں اعجاز احمد نے  انتہائی  سادہ زندگی  بسر کی اور  آنے والی نسلوں کے لئے پاک فوج سے اخو ت اور محبت کا ایک بیج بوگئے۔  اور 29دسمبر 2012 کو مختصر علالت کے بعد لاہورمیں   وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالی میاں اعجاز احمد کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :