امام غزالیؒ تجارت اور کسبِ حلال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ، عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ جس نے صرف عدل کیا اس نے دین کا سرمایہ محفوظ رکھا لیکن فائدہ احسان میں ہے اور احسان وہ بھلائی ہے جس سے معاملہ کرنے والے کو ایسا فائدہ پہنچے جو فائدہ پہنچانا آپ پر واجب نہیں تھا۔احیاءالعلوم کے مطابق ایک بزرگ نے گندم سے بھری کشتی بصرہ بھیج کر اپنے وکیل کو خط لکھا کہ یہ بصرہ پہنچتے ہی فروخت کردینا اگلے دن تک موخر نہ کرنا۔
اتفاقاً وہاں بھاؤ کم تھا تو تاجروں نے وکیل کو زیادہ نفع کمانے کیلئے ایک ہفتہ تک موخر کرنے کا مشورہ دیا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور کئی گنا نفع کمالیا۔ معلوم ہونے پر ان بزرگ نے وکیل کو خط لکھا کہ ہم اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ تھوڑے نفع پر ہی قناعت کر لیتے ہیں مگر تم نے اس کا خلاف کیا لہٰذا جب تمہارے پاس یہ خط پہنچے تو سارا مال بصرہ کے فُقَرا پر صدقہ کر دینا۔
(جاری ہے)
ہمارے ہاں ہر چیز میں ذخیرہ اندوزی ہوتی ہے۔عام طور پر اس میں گندم، چینی، آٹا، گھی،دالیں وغیرہ شامل ہیں۔لیکن ہمارے ملک کے تاجر حضرات تو دوسری چیزوں کو بھی سٹور کر لیتے ہیں۔تاکہ جب مارکیٹ میں اس چیز کی شارٹیج ہوگی تو زیادہ منافع لیں گے۔ اس چیز سے ہمارا دین اور ہمارے ملک کے قوانین منع کرتے ہیں ۔ کورونا کی آمد کے بعد ہم نے دیکھا کہ فیس ما سک ،ہینڈ سینیٹائزر، گلووز حتی کہ وینٹیلیٹرز تک مارکیٹ سے غائب ہو گئے۔
مجھے یاد کہ 1999 میں آرمی کی مانیٹیرنگ کے دوران بڑے پیمانے پر لوگوں کے گھروں سے بجلی کے میٹر، تاریں اور ٹرانسفارمر نکلے ۔ عام لوگ دفتروں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے لیکن ان کے میٹر نہیں لگتے تھے۔جائز کام کے لئے مجبوراً ناجائز کام اور رشوت کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ۔ صوبوں میں اکثر رمضان مبارک میں انسداد ذخیرہ اندوزی آرڈیننس نافذ کر نا پڑتا ہے۔
نیکی کے مہینے میں ذخیرہ اندوزی کی جاتی ہے اور عام استعمال کی چیزیں بشمول سبزی، فروٹ مہنگے ہو جاتے ہیں۔ تجارت میں زیادہ نفع حاصل کرنے کے لئے ایک حربہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کر کے بازار میں مصنوعی قلت پیدا کردیجاتی ہے جس سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور چیزوں کے نرخ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پھر گراں بازاری کے اس موقعہ سے ذخیرہ اندوز تاجر خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔
فقہی اصطلاح میں اس عمل کو احتکار Hoarding)) کہا جاتا ہے جو شرعی نقطہ نظر سے حرام اور انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اس میں انسانوں کی خدمت اور حاجت روائی کے جذبہ کے بجائے ضرر رسانی اور استحصال کا جذبہ داخل ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ذخیرہ اندوزی کی وہ خطاکار ہے‘‘۔ برطانیہ میں حال ہی میں مشہور سٹیرائڈ ” ڈیکسا میتھا سون “ کو کورونا وائرس کے خلاف مفید قرار دیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ آکسیجن اور وینٹی لیٹر پر موجود افراد کی زندگی بچانے کیلئے اہم دوا ہے تاہم جیسے ہی یہ تحقیق منظر عام پر آئی تو یہ خبر ذخیرہ اندوزوں تک بھی پہنچ گئی جس کے بعد اب یہ کراچی ، پشاو ر اور اسلام آباد سمیت تقریبا ملک بھر کے میڈیکل سٹورز سے ڈیکسا میتھا سون غائب ہونا شروع ہو گئی ۔
۔ بعض لوگ گرانی کی امید میں غلے وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں۔اور لوگوں کی ضرورت کا خیال نہیں رکھتے یہ فعل عمومی ظلم کے مترادف ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں جو شخص چالیس دن تک غلہ کی ذخیرہ اندوزی کرے اس کا دل سخت ہو جاتا ہے۔یعنی لوگوں کی ضرورت اور پریشانی کا احساس اس کے دل سے ختم ہو جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے مطابق باہمی تعاون کا بہت بڑا ذریعہ تجارت اور کاروبار ہے۔
لہٰذا اس کو تعاون ہی کے اصول پر جاری رہنا چاہئے۔ پس جس طرح تاجروں اور کاروباری حضرات کے لئے جائز نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ اور ذخیرہ اندوزی یا غلط قسم کی مقابلہ بازی سے تعاون اور امدادباہمی کی روح کو نقصان پہنچائیں، اسی طرح حکومت کے لئے بھی مناسب نہیں کہ طرح طرح کے بھاری ٹیکس لگا کر تجارت کے فروغ اور ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے اوررخنہ اندازی کرے۔
ذخیرہ اندوزی کرنا ، ملاوٹ کرنا ، ناپ تو ل میں کمی ، کسی خرید ار کو عیب والا مال بیچنا ، جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا یا عمدہ چیز بتا کر گھٹیا چیز بیچنا اچھے معاشرے کی عکاسی نہیں۔ کسی چیز یا جمع کیے گئے مال کو جسے کم پیسوں میں خریدا ہوتا ہے لیکن مارکیٹ میں وہ چیز کم یا ب ہوجاتی ہے تو اس کو پھر نئی قیمت پر مہنگے دام بیچا جاتا ہے جیسے اکثر پیٹرول وغیرہ پر ہوتاہے کہ رات میں دام بڑھ جانے کی توقع پر پرانا اسٹاک لوگوں کو اس وقت تک اس دن نہیں دیا جاتا جب تک نئی قیمت کی لسٹ نہیں آجاتی ۔
پرانی چیز کو نئی کے ساتھ ملاکر بیچ دینا ، ایکسپائر زائد المدت چیزوں کا لیبل ہٹا دیا جاتا ہے یا اس کو مٹا دیا جاتا ہے۔ کینیڈا میں سپرمارکیٹ نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سینیٹائزر '5 ڈالر' جب کہ اگر کوئی دو سینیٹائزر خریدنا چاہتا ہے تو اس کی قیمت 150 ڈالرز رکھی ہے۔ اس طرح کرنے سے اب صارفین خود ایک ہی سینیٹائزر خریدیں گے۔ صوبائی انتظامیہ کی جانب سے ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف موثر اقدامات کے ساتھ ساتھ ہر ضلع کی شہری اور دیہی تحصیل میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے پر شہریوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ متعلقہ پرائس کنٹرول کمیٹی کو مطلع کریں۔
اس سلسلے میں یوٹیلیٹی سٹورز کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ منڈی اور مارکیٹ میں قیمتوں کے فرق کو کم کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کو برؤے کار لایا جائے اور اس فرق کا تدارک کیا جائے۔ آن لائن آرڈرز اور ان اشیا کی عوام کی دہلیز تک فراہمی کے سلسلے میں بنائی جانے والی اپلیکیشن “درست دام”کا بھرپور استعمال کیا جائے۔ حکومت پنجاب پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈکے ذریعہ ڈیجیٹل مانیٹرنگ میکانزم اور ٹول فری ہیلپ لائن کو استعمال کررہی ہے جس میں منافع بخش اشیاء اور ضروری اشیاء کی تجارت میں ذخیرہ اندوزی کے خلاف شکایات ریکارڈ کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
2013 سے ایک آن لائن پرائس کنٹرول اور مانیٹرنگ سسٹم " قیمت پنجاب" تیار اور تعینات کیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنی روز مرہ کی قیمت چیک میں اس سسٹم کا استعمال کرتے ہیں۔ آن لائن سسٹم نے شہریوں کو بیداری اور اشیاء کی قیمتوں کے بارے میں آراء کے لئے بھی سہولت فراہم کی ہے۔ پی آئی ٹی بی اب رائے جمع کرنے کے لئے کثیر سطحی ایس ایم ایس سسٹم تیار کررہا ہے۔ GIS پر مبنی نظام ،قیمتوں کے لئے پیش گوئی کرنے والی ماڈلنگ فراہم کرے گا۔بلا وجہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جائے۔اس کے علاوہ گوداموں کی گوگل لوکیشن ، سائز اور کیپیسٹی کا بھی محکمانہ ریکارڈ موجود ہونا چاہئے۔حکومت اور شہری مل کر ہی ان ذخیرہ اندوزوں کے عزائم کو خاک میں ملا سکتے ہیں۔