
مکڑی کا جال
منگل 14 جولائی 2020

عارف محمود کسانہ
لاہور کے نولکھا بازار میں پان سگریٹ فروخت کرنے والے دکاندار جمشید اقبال کی پانچ دن قید کی سزا کو ختم ہوئے چھ سال گزرنے کے باوجود بھی جیل حکام انہیں رہا نہیں کر رہے تھے اور ان سے رہائی کا عدالتی حکم نامہ مانگا جارہا تھا۔
(جاری ہے)
عدالت کے کٹہرے میں وہ شخص نہیں بلکہ خود پاکستان کا عدالتی نظام کھڑا تھا جو زبان حال اپنی فرسودگی، سست روی اور ظلم کی داستان کہہ رہا تھا۔
ہے کسی کے پاس اس کا کوئی جواب ؟ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے منصف اعلی جناب چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ کی عدالت اکثر چھوڑے بڑے معاملات پر سوموٹو لیتی رہتی ہے، ایک سوموٹو ملک کے عدالتی نظام پر بھی لیں، جو بہت ضروری ہے۔ ملک کی عدالتیں دوسرے اداروں کی اصلاح اور ان کے لئے جزاوسزا کے فیصلے دیتی رہتی ہیں لیکن خود عدالتی نظام کے بارے میں فیصلہ کون کرے گا۔ پا کستان کا سب سے بڑا مسئلہ نظام انصاف کی خرابی ہے۔ آ ٓپ نظام عدل کو درست کردیں دیگر ادارے خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے۔ انصاف میں تاخیر اور بے گناہ کو مقید رکھنا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ سراسر ظلم ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ پہلی امتوں کے تباہ ہونے کی ایک بڑی وجہ نظام عدل کا نہ ہونا تھا جہاں امیر اور باثر افراد سزا سے بچ جاتے تھے لیکن غریب اور محکوم طبقہ کو سزا دی جاتی تھی۔
پاکستان کا عدالتی نظام مکڑے کے جال کی طرح ہے، کمزور کو پھانس لیتا ہے اور طاقتور کی پھونک سے اڑ جاتا ہے۔ دولت اور اثر رسوخ کے سامنے عدالتی نظام باندی کی طرح ناچتا ہے اور غریب آدمی پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے۔ بااثر مجرم کو یقین ہوتا کہ نظام انصاف کو خرید لے گا۔ پولیس، وکیل اور جج سب چمک کے آگے خیرہ ہوجاتے ہیں۔ جہاں عدل نہیں ہوگا وہاں جدل ہوگا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے یہ تو اس سے بھی بدتر ہے۔ مظلوم حصول انصاف کے لئے دکھے کھاتا اور پستا رہتا ہے جبکہ مجرم عدالتی نظام کا مذاق اڑاتا ہے۔ جس ریاست میں شہری کو عزت نفس اور عدل نہ مل سکے وہ ریاست کہلانے کی ہی حق دار نہیں۔ یہ پاکستان میں ہونے والا کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے کئی اور واقعات بھی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انصار برنی کو کوششوں سے ایک شخص کو غالبا تیس سال بعد رہائی ملی جسے آوارہ گردی کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے برسر اقتدار آنے سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں عدل و انصاف پر مبنی نظام کے بنیاد پر نیا پاکستان بنائیں گے۔ وہ اپنے دور اقتدار کے نصف دور سے گزر رہے ہیں لیکن لوٹ کھسوٹ کا نظام بدلنے کا آغاز بھی نہیں ہوا۔ انہیں اپنی رفتار تیز کرنا ہوگی اور ملک میں پولیس اصلاحات، تفتیش اور انصاف کے نظام کو اپنے وعدوں کے مطابق ترتیب دینا ہو گا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے منسوب یہ قول پیش نظر رہنا چاہیے کہ کفر کا نظام قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام کبھی پنپ نہیں سکتا۔ ہم سب کو بحیثیت قوم اپنا اپنا فرض پورا کرنا چاہیے اور معاشرہ سے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنے کے لئے کرادر ادا کرنا چاہیے۔ جو لوگ معاشرہ میں ظلم اور انصافی کے ذمہ دار ہوں ، ان سے اور کچھ نہیں تو کم از کم سماجی فاصلہ ہی رکھ لینا چاہیے کیونکہ ایسے لوگ کسی کورونا سے کم نہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.