خوش رہنے کے لئے کیا ضروری ہے؟

منگل 23 جون 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

کسی جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا ۔ جو قابل ہونے کے ساتھ ساتھ پہلوان اور مظبوط تھا ۔ یعنی اس جنگل کے چوہواں کا سردار تھا۔ بہت سے دوسرے جنگل کے چوہے اس کے خوف کی وجہ سے ادھر کا رخ نہیں کرتے۔ وہ بہت خوش و خرم زندگی گزر رہا تھا۔ لیکن ایک دن  ایک شیر اس کے گھر کے پاس رہنے کے لئے  ایا۔ جب اس نے شیر کو دیکھا ۔ کہ کس طرح بلی اور دوسرے جانور جسے خرگوش وغیرہ ان سے بہت ڈرتے ہیں ۔

تو اس کے دل میں یہ ارمان پیدا ہو گیا کہ کاش میں بھی اس کے طرح طاقتور ہوتا ۔ سب جانور مجھ سے ڈرتے۔ اور میں ان کا بادشاہ ہوتا۔ وہ چپ اداس اور غمگین رہنے لگا۔ ان کے دوست ان کے اس چپ سے بہت پریشان تھے ۔ لیکن پوچھنے کی ہمت کسی میں بھی نہ تھی ۔ ایک روز ایک دوست نے آنکھیں بند کر کے پوچھ ہی لیا تو چوہے نے سارا قصہ اسے سنایا ۔

(جاری ہے)

تو دوست  نے  کہا کہ یہ کونسا بڑا مسئلہ ہے  ہم کل  صبح جا کے شیر سے ملینگے  اور ان سے سارے ٹیپس لینگے ۔

کہ ایک چوہا کس طرح شیر بن سکتا ہے ۔ وہ رات چوہے پر بہت لمبی تھی کیونکہ اس نے صبح جا کے شیر بنے کی ٹیپس لینی تھی ۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جب میں شیر بن جاونگا۔ تو کس طرح ساری بلیوں کو جنگل سے نکالا ونگا۔اس کے آنکھوں کے سامنے وہ فلم چلنے لگی اور وہ سو گیا ۔ اس نے ایک خواب دیکھا جس میں وہ چوہا نہیں ۔ شیر ہے بہت طاقتور اور جنگل کا بادشاہ ۔

جنگل میں اس کا راج ہے ۔ ہر کوئی ان سے ڈر رہا ہے ۔ لیکن کیا دیکھتا ہے ۔ کہ ایک طرف سے سارے  جانور بھاگ رہے ہیں  ۔ اور اونچی اونچی آواز سے پکار  رہے ہیں کہ جنگل پر حملہ ہوگیا ۔سب جانور چھپ جاو۔ سارے جانور اپنے اپنے گھروں  میں چھپ رہے ہیں  شکاری شیر  کے طرف بڑھنے لگے ۔ شیر  نے دیکھا کہ سب سے محفوظ پناہ گاہ اس وقت چوہواں کا بل ہے۔کیونکہ وہ زمین کے اندر ہے اور چوہے بھی چھوٹے ہیں اسلئے اس میں بہت محفوظ ہیں  لیکن وہ تو اب  شیر تھا اس لئے بل میں نہیں جا سکتا ۔

تو شکاری ان کو بے ہوش کرکے لے گئے ۔ اور اس کی قید کی زندگی شروع ہو گئی اور یہ ان دنوں کو یاد کر نے لگے جب وہ چھوٹا سا چوہا ہوا کرتا تھا ۔ آرام اور سکون کی زندگی گزرتا تھا ۔ بہت مس کر رہا تھا ان دنوں کو بہت پریشانی کے عالم میں اس کی آنکھ کھلی ۔ تو اللہ کا شکر ادا کرنے لگا ۔ کہ شکر ہے کہ یہ ایک خواب تھا اور میں ایک چوہا ہوں ۔وہ بول رہا تھا  کہ اللہ تو جو کرتا ہے ۔

وہ ہمارے لیے اچھا ہوتا ہے ۔ اے اللہ میں آج کے بعد کبھی بھی ناشکری نہیں کرونگا ۔ اور اس کے بعد وہ خوش رہنے لگا۔
دوستوں بالکل اسطرح ہمارا معاملہ بھی ہیں ۔ ہم اس دن تک خوش ہوتے ہیں ۔ جس دن تک ہم  اپنے سے اچھے اور مالدار کو نہیں دیکھتے ۔ اس کو دیکھنے کے بعد بس زندگی بیکار ہو جاتی ہے۔ ہم سوچتے ہیں ۔ وہ مالدار ہے کامیاب ہے۔ خوش تو صرف دنیا میں وہ ہے ہم تو اس دنیا میں بھی خوار و زار ہیں اور  اخرات میں بھی ۔

لیکن اگر اس کامیاب اور مالدار شخص سے پوچھے تو وہ بولیگا ۔ بھائی میں کہاں خوش ہو خوش تو فلاں ہے ۔اینڈ سو ان
خوشی کا تعلق دل سے ہے ۔ ہر شخص کو اللہ نے ایک کام کے لیے پیدا کیا ۔ کسی کو غریب کسی کو مالدار ۔لیکن  عضاء سب کو ایک جسے دئے ہیں ۔ اب جو اللہ کے تقسیم پے راضی ہوا وہ دنیا جہاں میں کامیاب ہو گیا ۔ اور جو نہیں خوش اس تقسیم سےوہ ساری زندگی بے سکون  اور غمگین رہےگا۔

ایک مثال دیتا ہوں آپ لوگوں کو زمبابوے کے صدر نے میرے خیال سے 2001 میں سوچا کہ میرے پاس پیسوں کی چھپنے والا مشین ہے۔ کیوں ہمارے لوگ غریبی اور مشقت والی زندگی گزر رہے ہیں ۔ اس نے سب کو ارب پتی بنانے کا سوچا ۔ اور نوٹ چھاپنے لگا ۔ ہر شخص ارب پتی ہونے لگا۔ لیکن نظامی زندگی تباہ وبرباد ہوگئی ۔ کوئی بھی شخص کام کرنے کے لیے  تیار نہ تھا ۔ سب ارب  پتی تھے ۔

اور ایک وقت ایسا آیا کہ ایک بریڈ 10 کروڑ کا ملنے لگا ۔ لوگ گاڑیاں بھر کے پیسے لاتے اور تھوڑا سا سامان لے کے جاتے ۔ اسطرح میرا رب بھی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ۔ کہ اگر ہم نے بعض کو بعض سے کنٹرول نہیں کیا ہوتا تو دنیا میں فساد برپا ہو جاتا ۔
اسلئے دوستوں اللہ جس حال میں رکھے اس پے صبر اور شکر ادا کرنا چاہیے اور زندگی میں کبھی بھی اپنے سے اوپر کو نہیں دیکھنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :