پردیس کی زندگی

منگل 8 ستمبر 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

بہت سارے خواب انکھوں میں سجا کے وہ دوسرے ملک جانا چاہتاتھا۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ پاسپورٹ بنوانے کے بھی پیسے نہ تھے۔ وہ روز سوچتا تھا۔ دوسرے ملکوں میں رہنے والوں کو حسرت سے دیکھتا تھا۔ کہ کتنا بڑا گھر ہے گاڑی ہے ۔ عمدہ لباس ہے اور ارام سے چھٹی گزرتے ہیں ۔ نا کوئی ٹینشن اور نہ کوئی فکر۔۔۔۔   
اس کی سوچ اہستہ اہستہ اس کی ضد بن گئی اور وہ ہر وہ طریقہ اور راستہ ڈھونڈنے لگا جس سے وہ دیار غیر جا سکتا ہو۔

ماں باپ جب سمجھا سمجھا کے تھک گئے تو اماں نے اپنے زیوار اور جانور فروخت کر کے شہزادے کا پاسپورٹ بنوایا۔ اور ویزے کے لیے بھی لوگوں سے پوچھنا شروع کیا۔ ان کے گاوں میں ایک حاجی صاحب تھے جو خود پچھلے پچیس سالوں سے دیار غیر میں محنت مزدوری کر رہےتھے نے اسے بہت سمجھایا لیکن ان کے سر پر پردیس کا بھوت سوار تھا۔

(جاری ہے)

ان کے زندگی کا مقصد دیار غیر بن چکا تھا۔

وہ اکثر سوچوں اور خیالوں میں دیار غیر چلا جاتا تھا۔ وہاں اسے بڑے بڑے شاندار رہائشی بلڈنگز نظر اتے تھے جسمیں اس کے دوست احباب رہتے تھے۔ صبح دس بجے افس جاتے تھے اجھلے اور صاف کپڑوں میں ان کے ساتھ بڑی بڑی گاڑیاں ہوتی تھی۔ جو تھوڑا سا کام کرکے لاکھوں میں کھیل رہے ہوتے۔ ۔۔۔
اور ایسے سوچتے سوچتے دن گزرتے رہے اور وہ دن بھی اگیا جب وہ دیار غیر جا رہا تھا۔

اس کا ویزہ لگ چکا تھا ٹکٹ اس کے ہاتھ میں تھی ۔ ان سب کے لیے باپ نے تھوڑی بہت جو باپ دادا کی زمین تھی اسے فروخت کی تھی ۔ یہ جب ائرپورٹ کے لیے گھر سے نکل رہا تھا تو اماں کو بہت سہانے سہانے خواب دیکھا رہا تھا اور اماں بس روئی جا رہی تھی ۔ کہ ان کے نازوں میں پلا بڑھا شہزادہ دیار غیر میں غلامی کے لیے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
جہاز میں بیٹھ کے وہ ان خوابوں کے بارے میں سوچنے لگا ۔

جو وہ ہر روز کھلی انکھوں سے دیکھتا تھا۔ اور جہاز منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئی ۔ ائرپورٹ پر اس کے دوست ان کو لینے کے لیے موجود تھے ۔ ایک دوسرے سے مل کے سب روانہ ہوئے راہ میں بلند بالا عمارتیں اور سڑک پر چلنے والے بیش بہا قیمت کے گاڑیوں کو دیکھ کے وہ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہمارا رہایش  کسی بڑے بلڈنگ میں ہوگی جسمیں میرا کمرہ تیار ہوا ہوگا۔

کہ شہزادہ پاکستان سے ا رہا ہے۔ لیکن شدید دھجکا اسے تب لگا جب گاڑی ایک بوسیدہ سی عمارت کے سامنے رکی ۔ دوستوں نے سامان اٹھایا اور اس کو انے کے لیے کہا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس پر حیرت کا ایک اور جہاں کھولا۔ چھوٹے سے عمارت میں اتنے زیادہ لوگ۔۔۔۔۔۔
کمرے میں اٹھ دس ادمی ۔ دو تین منزلہ چارپائی اور بہت کچھ جو اس نے پہلے نہ دیکھا اور نہ سنا تھا۔

خدا خدا کرکے انکھ لگی تو صبح سویرے اذان سے پہلے اس کو جگایا گیا ۔ جو اس کی زندگی میں پہلا دن تھا جب اس نے فجر کی اذان سنی ،کام پے جانے کے لیے ایک پرانا بس باہر انتظار کر رہی تھی۔ ان کے سارے خواب ، خواب بن کے رہ گئے اور وہ اس دن کو کوسنے لگا جس دن اس نے یہ خواب دیکھے تھے ۔ ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹے جب اس نے گاوں میں پراڈو میں گھومنے والوں اور بیش بہا پرفیوم استعمال کرنے والوں کو ایک نئے رنگ میں دیکھا ۔

اب روتا تھا پچھتا تھا ۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ اب تو وہ واپسی کے سارے کشتیاں جلا چکا تھا۔ اب واپس جانا ان کے والدین کے لیے ناقابل برداشت ہوتا کیونکہ  سب کچھ بھیج کے اسے دیار غیر بھیجا تھا۔ اب روز وہ فون پے جھوٹ بولتا کہ میں خوش ہو ۔ یہاں مزے ہی مزے ہیں ۔۔۔۔۔
اجکل ہمارے سارے نوجوان اور بھائی دوست انکھوں میں اسطرح کے سپنے سجا کے دیار غیر جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

جائیداد وغیرہ فروخت کر رہے ہیں ۔کہ دیار غیر میں جا کے پھر لے لونگا۔
پردیس کی زندگی بہت مشکل ہے ۔ ایک ایک دن اور لمحہ کیسے گزرتا ہے وہ صرف پردیسیوں کو معلوم ہیں ۔ کیسے کیسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور کون کون سے کام کرنے پڑتے ہیں یہ صرف دیار غیر والے جانتے ہیں  ۔ اپنے شہزادوں کو دوسروں کے غلامی سے بچائے ۔ اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں ۔ کاروبار کرنا سکھائے ۔ کھیتی باڑی کرنا سکھائے لیکن خدارا اس کو پردیس کبھی بھی نہ بھیجے۔ پردیس میں یہ غلام بن جاتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :