عارضی آسامیاں

بدھ 4 اگست 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

ترقی یافتہ ممالک میں ہر شعبے کے لیے اس شعبے میں ایکسپرٹ اور ڈاکٹریٹ ڈگری رکھنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہیں،  ہر ادارے اور وزرات کا قلمدان پروفئشنل لوگوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ اداروں ، مختلف شعبوں میں ترقی اور کامیابی کے لئے ریسرچ کرتے ہیں۔ وہ نئے گریجویٹ ہونے والے طالب علموں کو انٹرن شپ پر رکھتے ہیں جو بعد میں  مستقل  ہو جاتے ہیں۔

اور تعلیم حاصل کرنے والا بغیر  کسی  تکلیف کے بغیر کسی ٹینشن کے کمائی کا قابل بن جاتا ہے۔اسے بدقسمتی کہے کہ نااہلی یا کرپشن یا ملک و قوم کی دشمنی کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ ہر شعبے اور ادارے کو نااہل لوگوں کے سپرد کیا گیا ۔ جس کا نتیجہ ہم سب کو باخوابی معلوم ہیں۔ میرا کام اداروں یا وزارتوں پر تنقید نہیں مجھے فکر اپنے نونہالنے وطن کا ہے ۔

(جاری ہے)

جو ڈیپرس اور ناامید ہو چکے ہیں ۔۔۔۔
ایک غریب مزدور اپنے بچے کو اس امید پر تعلیم دلاتا ہے کہ وہ بڑا افسر بنے گا ، وہ اس کو مزدوری سے غریبی سے نکل دے گا ، اج کے تکلیف کو کل اپنی   کمائی سے دور کر دے گا ، لیکن بدقسمتی سے ہمارے افسران بالا  عرضی برتھیوں ، شاٹ ٹرم پراجیکٹس،  اور دوسرے نامناسب انتظامات سے قوم کے بچوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

ایک سال ، چھ مہینے کے لئے ادارے کو ضرورت ہو تو نئے گریجویٹ بھرتی کر لیتا ہے۔ جس کا وقت اور تجربہ نہ شمار ہوتا ہے نہ اس کے کسی کام آتا ہے،  ایک سال چھ مہینے گزار کے وہ پھر در در کی ٹھوکریں کھانا شروع کرتا ہے۔ ۔۔۔
 مسئلہ بہت سنگین اور اہم ہے لیکن اس طرف کسی کا بھی سوچ اور دھیان نہیں۔ مستقل بھرتی کے لیے جو ٹیسٹینگ ادارے بے ان کی کارکردگی تو سب کے سامنے ہے ۔

ایک سال سے دو سال تک ، کسی ایک محکمے میں دس پندرہ لوگ بھرتی کرنے  کے لیے لگاتے ہیں۔ زمانوں سے جو پوسٹس خالی پڑی رہتی ہے ہمارے نااہل نمایندے  اس پر قابل اور بے روزگار فریش فارغ شدہ نونہالان کو لگا دیتے ہیں،  لیکن مختصر عرصے کے لیے،  ان کو امید اور یقین ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں مستقل ہو جائینگے جو کے ان نااہلوں کی  پالیسیوں کی وجہ سے ناممکن ہے ۔

ان کا ایک سال ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ پالیسیاں پتہ نہیں کون لوگ  بناتے ہیں۔ جس سے صرف ان کے منظور نظر لوگ ہی مستفید ہوتے ہیں۔۔
پرائیویٹ ایجنسیاں تو خیر پرائیویٹ ہے حکومتی ایجنسیاں جو بھرتی کے ذمہ دار ہے کے لئے نا ختم ہونی والی زندگی،  اور بے تحاشا صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ کام بہت زیادہ ہے۔ پتہ نہیں کیا کام کرتے ہیں ایک ایک پراجیکٹ پر سالوں لگا دیتے ہیں۔

جس سے ایک طرف امیدواروں کی عمر مقرر شدہ حد سے بڑھ جاتی ہیں تو دوسری طرف بے روزگاری اور غربت سے لوگوں کا رحجان تعلیم حاصل کرنے سے ہٹ جاتا ہے۔ ۔۔۔
اکثر میرے دوست کہتے ہیں کہ سرکاری نوکری نہ ملے تو اپنا کاروبار کرنا چاہیے بلکل اسطرح جس طرح ایک  ملکہ  نے کہا تھا کہ اگر لوگوں کے پاس روٹی نہیں تو کیک کیوں نہیں کھاتے ؟ جس کے پاس ٹیسٹ،انٹرویو کے لئے  جانے کا کرایہ نہ ہو وہ کیسے اپنا کاروبار کرے گا ، کہاں سے سرمایہ لائے گا ،
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس طرف بھی توجہ دے ، اول تو تعلیم یافتہ افراد کے لیے مواقعہ پیدا کریں اور اس پر بھرتی مستقل بنیادوں پر اور مختصر عرصے میں کرائیں،  کنٹریکٹ،  مختصر عرصے والے،عرضی پراجیکٹس کا ترقی میں تو کوئی کردار نہیں البتہ بے سکونی اور ناامیدی کا سبب ضرور بن رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :