
فضل رحمن زندہ باد
پیر 14 اکتوبر 2019

ارشد سلہری
(جاری ہے)
مولانا فضل رحمن کو لانچ کرنے والے بھی وہی ہیں ۔
جو عمران خان کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے رہے ہیں۔سب اپنی سوچ کے مطابق درست کہتے ہیں ۔ایسے ہی ہوتا ہے۔جب سیاسی جماعتیں اپنی اہمیت اور افادیت کھو جاتی ہیں۔قومی سطح پر قیادت کا بحران ہوتا ہے تو عوامی رجحانات اسی طرح تعمیر ہوتے ہیں۔قیادت کے بحران میں مولانا فضل رحمن نے جست خوب لگائی ہے۔سب کو اپنی لین میں کھڑا کرلیا ہے۔پیپلزپارٹی،مسلم لیگ ن کیا ،حکومت اور میڈیا بھی مولانا کے آزادی مارچ کے سحر میں جکڑا نظر آتا ہے۔ آصف زرداری،نوازشریف کی کمی پوری کردی ہے۔بلاول کی ریٹنگ تیسرے نمبر پر بھی نہیں رہی ہے۔سہ سرخیاں اب مولانا کی ہی بن رہی ہیں۔عرفان راجہ کا بنیادی سوال بھی یہی تھا کہ مولانا فضل رحمن کسی اشارے پر متحرک ہوئے ہیں جبکہ راقم کا موقف ہے کہ مولانا اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔میدان خالی دیکھ کر متحرک ہوئے ہیں۔حکومت مسلہ کشمیر پر شکست خوردگی کا شکار تھی۔عوامی خواہشات کے مطابق مسلہ کشمیر پرحکمران جماعت سے بہتر انداز میں احتجاج بھی نہیں ہوسکا۔ مجموعی طور عمران خان ملک کے اندر بھی کشمیر پر عوام کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ مسلہ کشمیر انسانی المیہ ہونے کے باوجود پاکستان میں مذہبی طبقات کا مسلہ رہا ہے۔کشمیر پر احتجاج مذہبی حلقے ہی کرتے رہے ہیں۔مگر اس بار کئی جماعتیں کالعدم قرار دیئے جانے کےباعث کشمیر ایشو پر باہر نکلنے سے قاصر رہی ہیں۔کالعدم جماعت دعوۃ حافظ سعید بھی نہیں نکل سکتے تھے۔جماعت اسلامی بھول کر گئی ہے حالانکہ کشمیر ایشو جماعت اسلامی کی سیاست میں آکسجین ہوا کرتا ہے۔سراج الحق نے دیر کردی ہے۔ اس ساری صورتحال میں مقتدرہ اورحکومت کے لئے فضل رحمن کا احتجاج انتہائی مناسب ہے۔فضل رحمن ایک منجھے ہوئے سیاستدان ،مذہبی راہنما ہیں۔پارلیمانی سیاست کرتے ہیں۔بین الاقوامی طور تسلیم شدہ سیاستدان ہیں۔مذہبی شدت پسندی اور جہادی ہونے کا بھی کوئی مسلہ نہیں ہے۔اب کوئی لاکھ کہتا پھرے کہ مولانا فضل رحمن کسی کے اشارے پر ناچ رہے ہیں۔حالات ایسے بن گئے کہ فضل رحمن کےلئے بھی سود مند اور حکومت اور مقتدرہ بھی فائدے میں ہے کہ کشمیر کا مسلہ تو حل ہوگیا ہے۔ میڈیا ،سیاسی جماعتوں اورعوام کی توجہ اب آزادی مارچ نے حاصل کرلی ہے۔کشمیر ایشو اب کشمیریوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔مقتدرہ اور حکومت بھی یہی چا رہی تھی۔اس امر میں اب کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ مقتدرہ اور حکومت الگ الگ ہیں ۔کم از کم اگلے تین سال مقتدرہ اور حکومت میں فرق کرنا مشکل ہے۔لہذا نواز شریف سے ڈیل کی خبریں، نواز شریف کی پیشی کے بہانے عوامی رونمائی سمیت آزادی مارچ اور مولانا فضل رحمن کا تحرک کشمیر ایشو کے تناظر میں دیکھا جائے ۔حکومت جانے اور عمران خان کو ہٹائے جانے کی باتوں کو محض تفریح کےلئے لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ارشد سلہری کے کالمز
-
عبادات سے سماجی ذمہ داری زیادہ ضروری ہے
جمعہ 2 جولائی 2021
-
اسلامی نظام کیا ہے اور نفاد کیسے ہوگا
بدھ 30 جون 2021
-
آزاد کشمیر الیکشن ،پاکستان میں مقیم منگلا ڈیم کے ہزراروں متاثرین کے ووٹ کینسل کیوں؟
ہفتہ 19 جون 2021
-
عمران خان اور قیادت کا بحران
بدھ 9 جون 2021
-
آئی ایس آئی کی پبلک ڈومین بند کی جائے یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے
منگل 8 جون 2021
-
درست خیالی کا فقدان کیوں؟
ہفتہ 5 جون 2021
-
الو کے پٹھے
جمعہ 4 جون 2021
-
اسد طور پر تشدد کے خلاف احتجاج کا جائزہ
پیر 31 مئی 2021
ارشد سلہری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.