ووٹ کو عزت دو سے مجھے اجازت دو کا سفر

بدھ 20 نومبر 2019

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

عام آدمی کو نوازشریف کی بیماری اور سیاسی مستقبل سے کوئی سروکار نہیں ہےاور نہ عمران خان کے بیانیہ سے کوئی واسطہ ہے۔عام آدمی کا مسلہ ٹماٹر اور پیاز کی قیمت ہے۔روزگار،بجلی اور گیس کے بل ،گھر کاکرایہ اور بچوں کی فیس ہے۔عام آدمی 1947 سے لیکر 2019 تک یہی سیاسی تماشے دیکھ رہا ہے۔ملکی تاریخ کا نوازشریف ایپی سوڈ کوئی پہلا نہیں ہے۔

یہ ایک تسلسل ہے۔فیروز خان نون کا،سکندر مرزا کااور جنرل پرویز مشرف کاجو بلاتعطل جمہوریت کے چند وقفوں (شارٹ بریک ) کے ساتھ جاری و ساری ہے۔بدگنانی ہے کہ جاری رہے گا۔ وطن عزیز میں تو یہ کلچر ہے کہ نئی حکومت کے بننے کے ساتھ ہی گرانے کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔اپوزیشن کا تصور ہی نہیں ہے ۔کردار ہی نہیں ہوتا ہے۔ملکی ترقی اور عوامی مسائل سے اب پیپلزپارٹی کو بھی سروکار نہیں رہا ہے۔

(جاری ہے)

پیپلزپارٹی میں قدرے سیاسی اقدار ہیں ۔مگر بلاول کی سیاست خلفشار سے دوچار ہے۔ نظریاتی اور ترقی پسندی سے ابھی دور ہیں ۔
شریف برادران کاروباری لوگ ہیں۔سیاست بھی کاروبار ی طریقے سے کرتے ہیں ۔نفع و نقصان دیکھتے ہیں بلکہ منافع پر منافع کو ترجیح دیتے ہیں۔مریم نواز شریف کو پنجاب کی بے نظر کہنے والے اور نوازشریف کو مزاحمت کا استعارہ قرار دیکر بھٹو سے بڑا لیڈر قرار دینے اور یہ کہنے والے کہ عوام بھٹوکو بھول جائیں گے اور قائد عوام نوازشریف کا نام یاد رکھیں گے۔

ہو سکتا ہ ے انہیںاب شرمندگی کا سامنا ہو۔
سیاسی کارکنان اور سیاسی تجزیہ کاروں کو برحال پوری طرح اس امر سے واقف ہونا چاہیئے کہ سیاست دان کون ہوتا ہے اور کس کے خمیر میں مزاحمت کا عنصر پایا جاتا ہے ۔حبیب جالب اور فیض احمد فیض کے شعر پڑھنے سے کوئی انقلابی نہیں بن جاتا ہے۔غم وغصے کا شکار ہوکر کوئی ووٹ کو عزت دینے کی بات کہہ دے تو وہ مزاحمت کار یا مزاحمت کا ستعارہ نہیں کہلائے گا۔


سیاست گالی گلوچ ،مخالفین کےخلاف طعنہ بازی ،الیکشن جتنے اور اقتدار میں آنے کا نام نہیں ہے۔سیاست نظریات کا نام ہے۔نظام کا نام ہے۔شریف برادران کے پورے خانوادے میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے ۔جس کو کسی نظریے اور نظام کے بارے میں معلوم ہو ۔شریف برادران سے ووٹ کو عزت دو کی جدوجہد کی توقع کرنا اور مزاحمت کی امید رکھنا صرف خود فریبی اور غلط فہمی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔


سیاست کا یہ عہد قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔نئی قیادت کی تراش اب براہ راست عساکر نے اپنے ذمہ لی ہے۔طلبہ یونین ،ٹریڈ یونین سیاسی جماعتیں اب قیادت کی تعمیر سے بری الذمہ ہیں ۔مراد سعید ابھرے ہیں مگر مراد سعید جیسا حوصلہ اور ہمت ہر کوئی نہیں کر سکتا ہے۔
آج اگر یہ حالات ہیں تو ذمہ دار سیاستدان ہیں ۔سیاسی جماعتیں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ مقتدرہ کام نہیں کرنے دیتی ہے۔

سیاستدانوں نے خود اقتدار کےلئے عسکری مقتدرہ کا سہارا لیا ہے۔نوازشریف اور عمران خان زندہ مثالیں ہیں۔جنہوں نے اقتدار کی خاطر ووٹ کی عزت کو پامال کیا ہے۔ووٹ کی عزت خود پامال کرنے والے ووٹ کی عزت کےلئے جدجہد نہیں کرتے ہیں بلکہ راہ فرار کےلئے پھر سے ووٹ کی عزت برباد کرتے ہیں تاکہ اپنی جان بچاکر بھاگ سکیں ۔
پاکستان کے عوام نے ووٹ کو عزت دو سے مجھے اجازت دو کا نواز شریف کا سفر کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔آگے عمران خان کی باری ہے کہ وہ قوم یوتھ کی امیدوں کس حد تک پورا اترتے ہیں ۔ ریاست مدنیہ اور نیاپاکستان کیسے بناتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :