سنگین غداری کیس:جے یو آئی اور مولانا فضل رحمن نے سیاست باقیوں نے کاروبار کیا

منگل 24 دسمبر 2019

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

آئین شکن آمر کیخلاف عدالتی فیصلہ جمہوریت پسند قوقوں کے لئے موقع غنیمت تھا۔چاہیے تو یہ تھا کہ سیاسی قوتیں پوزیشن لیتی مگر ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔مسلم لیگ ن جس نے آئین شکنی کا مقدمہ درج کرایا تھا۔مکمل خاموش نظر آئی ہے۔پیپلزپارٹی نے بھی مجموعی طور پر مجرمانہ خاموشی سے کام لیا ہے اور محض بیان بازی تک محدود رہی ہے۔ مگر جمعیت علمائے اسلام ف نے جمہوریت اور آئین کے دفاع میں مدلل اور مضبوط موقف اپنایا، مفتی کفایت اللہ نے پریس کانفرنس کے ذریعے اپنی پوزیشن واضح کی۔

باقی سب جماعتوں نے مصلحت سے کام لیا۔جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ جمہوریت پسندی کا محض شور ہے۔حقیقت میں جمہوریت پسند وں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔۔۔
لال لال لہرانے والوں نے بھی چپ سادھے رکھی۔

(جاری ہے)

جمہوریت پسندی کا لیبل چپکائے کئی دانش ور،لکھاری اور صحافیوں کے چہرے بھی عیاں ہوئے۔برعکس اس کے ملک کے چوراہوں،سٹرکوں اور شوشل میڈیا پر آئین شکنی اور آمریت کے جھنڈے لہرائے گئے ہیں۔

شہر شہر آئین شکن اور آمر کے حق میں جلوس نکالے گئے۔بتایا گیا کہ آئین شکنی ہیروشپ ہے۔میڈیا پر شدومد سے ایک آئین شکن کے دفاع میں تجزیے اور تبصرے کیے گئے اور پرنٹ میڈیا میں مضامین لکھے گئے۔جمہوریت اور آئین کی مٹی پلید کی جاتی رہی ہے۔محدود چند کے سوا سب بڑے بڑے صحافیوں،دانشوروں اور تجزیہ کاروں سمیت سیاست دانوں نے جمہوریت اور آئین پسندی کی بجائے مصلحت پسندی کو ترجیح دی۔

۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت نے جمہوریت،سیاست،پارلیمان اور عوام کے مینڈیٹ کی لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔معمولی دباؤ پر آئین،جمہوریت اور عوامی حقوق پر اقتدار کو ترجیج دیکر یہ ثابت کر دیا ہے کہ حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ایگزیکٹو محض کٹھ پتلی ہے۔
قابل صدتحسین ہے جمعیت علمائے اسلام،مولانا فضل رحمن اور مفتی کفایت اللہ کہ انہوں نے مصلحت کا شکار ہوئے بغیر ڈنکے کی چوٹ پر جمہوریت اورآئین پسندی کا اظہار کیا اور آئین شکن اور آمریت پسندوں کو سبق بھی پڑھایا۔

واشگاف عدالتوں پر تبرہ بازی کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ایسا کرنے والے قوم سے معافی مانگیں بصورت دیگر ہم آخری حد تک جائیں گے۔مفتی کفایت اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ مذہبی مقدس کتابوں کے بعد آئین مقدس ترین دستاویز ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا یہ کام تمام سیاسی جماعتیں اجتماعی طور پرکرتیں جس سے عوام کا اعتماد بھی سیاست اور جمہوریت پر پختہ ہوتا اور آمریت پسندوں کو بھی روک لگتی۔

افسوس کہ سیاست دانوں نے مصلحت پسندی سے کام لیکر اس بات کو تقویت دی ہے کہ آئین شکنی اور مارشل لاء سیاستدانوں کی نااہلی اور نالائقی سے لگتے ہیں۔سیاست دان اگر جمہوریت پسند ہوں۔چھوٹے چھوٹے مفاد پر نہ بکیں تو کسی کی جرات نہیں کہ مارشل لاء لگائے اور آئین معطل کر ے یا آئین کے ساتھ کھلواڑ کرے۔
مفتی کفایت اللہ نے بانگ دہل پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس امر کی نشاندہی بھی کردی کہ سیاست دان کتنے کمزور اور مصلحت پسند ہیں۔

یہ بھی بتادیا کہ سارے سیاست دان مصلحت کا شکار بھی نہیں ہوتے ہیں۔سربکف بھی ہوتے ہیں۔مولانا فضل رحمن نے بھی بڑے مدلل انداز میں جمہوریت پسندی اور آئین کے دفاع کی بھر پور وکالت کی اور جرات مندی سے حالات کو جس ڈگر پر لیجانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کے بارے میں خبردار کیا اور اداروں میں تلخیاں بڑھانے کی شدید مذمت کی ہے۔مولانا فضل رحمن نے واضح کیا کہ اسی صورتحال اور رویہ ناقابل برداشت ہے۔

سیاسی بونوں اور سیاسی پراپرٹی ڈیلروں کو سمجھ جانا چاہئے کہ سیاست کیا ہوتی ہے اور سیاستدان کو کیسا ہونا چاہیے۔سیاست محض انتخابی عمل کا نام نہیں ہے۔سیاست ٹھیکے حاصل کرنے اور کمیشن خوری کانام نہیں ہے۔سیاست بوٹ پالش کرنے کانام نہیں ہے۔گلیاں،نالیاں، سٹرکیں،پل بنانے کا نام ہرگز نہیں ہے۔سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کا کردار وہ ہے جو جمعیت علمائے اسلام اور فضل رحمن نے کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :