افراد باہم معذوری دربدر کیوں ہیں؟

جمعرات 20 اگست 2020

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

سپریم کورٹ آف پاکستان افراد باہم معذوری کے حقوق پر کئی فیصلے دے چکی ہے ۔ہائیکورٹس کی جانب سے بھی کئی رٹ پٹیشن اور مقدمات میں افراد باہم معذوری کے حق میں فیصلے دیئے ہیں۔عدالتی فیصلے کہاں جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد کتنا ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں۔پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں افراد باہم معذوری کے خصوصی علامت کے حامل قومی شناختی کارڈ بنائے گئے ۔

خصوصی سرٹیفکیٹ بھی بنانے کےلئے بورڈ تشکیل دیئے گئے کہ معذوری کے حامل افراد کے بارے علم ہوسکے کہ ملازمت کے قابل معذوری ہے کہ نہیں ہے۔سر تسلیم خم کہ سب اچھا ہے۔مگر عدالتی فیصلوں سمیت حکومتی اقدامات کے ثمرات  کیا افراد باہم معذوری تک پہنچے ہیں ۔یہ سوال ابھی تشنہ جواب ہے ۔
بے نظیر انکم سپورٹ (احساس ) پروگرام ،بیت المال اور محکمہ شوشل ویلفیئر سمیت کئی ادارے ہیں جو بحالی برائے افراد باہم معذوری کےلئے قائم کردہ ہیں ۔

(جاری ہے)

ان اداروں میں افراد باہم معذوری کی بھرتی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔مذکورہ اداروں کے پاس کوئی ٹھوس اور جامع پروگرام نہیں ہے۔ریاست نے 73 سالوں میں کوئی قومی پالیسی مرتب نہیں کی ہے ۔وقت گزاری کےلئے کچھ پروگرام شروع کیے جاتے ہیں ۔جس کا زیادہ بجٹ افسرشاہی کے اخراجات اور تنخواہوں میں چلا جاتا ہے ۔جیسے آج کا احساس پروگرام ہے۔غریب کو ہزار روپے ماہانہ دینے کےلئے تین تین لاکھ روپےتنخواہوںپر افسر بھرتی کیے ہوئے ہیں۔

سرکاری اداروں میں ہر معذوری کے شکار فرد کو بیچارگی ،بے بسی اور لاچاری کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔عزت ،وقار اور انسانی قدر کی بجائے ترس کھانے والے انداز میں سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
معذوری کا شکار افراد کو یکساں مواقع حاصل نہیں ہیں بلکہ یوں کہنا مناسب ہے کہ مواقع ہی نہیں ہیں۔آگے بڑھنے ،پڑھنے  اور حصول جاب کے  لئےبے شمار جتن کرنا پڑتے ہیں ۔

گزشتہ چھ ماہ کے دوران کئی  افراد باہم معذوری کے انٹرویو کیے ہیں ۔جس میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ دوران تعلیم انہیں شدید ترین مشکالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ٹرانسپورٹ سے لیکر کلاس روم تک انہیں مشکلات ہی مشکلات رہتی ہیں۔حصول جاب میں بھی شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دو فیصد کوٹہ تو مختص ہے مگر جو ملازمتیں مشتہر کی جاتی ہیں۔

مختص کوٹہ صرف درجہ چہارم کی ملازمتوں میں دیا جاتا ہے۔
ہمت اور جدوجہد سے کامیاب ہونے والا مجموعی طور پرخواتین و حضرات میں سے ہر فرد یہ سوچ کر ایک این جی او بناتا ہے کہ جو سفر مجھے کرنا پڑا ہے ۔اس سفر سے دیگر افراد باہم معذوری کو بچا سکوں مگر معاملہ کسی اور طرف چل نکلتا ہے ۔غیرملکی فنڈز پر چلنے اور پلنے والی این جی اوز کے کردار سے بھی تمام لوگ آگاہ ہوچکے ہیں ۔

اب کوئی امر پوشیدہ نہیں ہے کہ این جی اورز کا کردار کیا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ خیراتی ادارے اور این جی اوز کے ذریعے حالات بدلے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں ۔ہاں مگر این جی اوز کے کرتا دھرتا کے حالات ضرور بدل جاتے ہیں ۔اسلام آباد ،لاہور ،کراچی اور پشاور کی کچھ این جی اوز نے افراد باہم معذوری کے نام پر کاروبار کیا ہے اور ڈالر کمائے ہیں۔سب این جی اوز کا بنیادی مقصد  ایک یہی ہوتا ہےکہ گرانٹ حاصل کی جائے ۔

افراد باہم معذوری تو محض ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔مطلب افراد باہم معذوری ہی معذوری کا شکار افراد کا استحصال کرتے ہیں۔  
معذوری کےشکار افراد  میں ہرقسم کی اہلیت اورصلاحیت موجود ہے۔تعلیم ہے۔ہنر ہے۔جذبہ ہے۔ہمت ہے۔اپنی خداداد صلاحیتیوں کو کام میںلائیں ۔سیاسی دھارے  میںشامل ہوکر اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لیں۔افراد باہم معذوری کو ہوش مندی سے کام کی اشد ضرورت ہے کہ استحصالی مافیاز سے بچیں اور خود کو بے توقیر مت ہونے دیں۔

مساوات پارٹی کا جھنڈا تھام لیں ۔مساوات پارٹی محروم طبقات ،خواجہ سرا ،غیرمسلم کمیونٹی سمیت ہر قسم کی معذوری کا شکار افراد کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے ۔جس مشن اقتدار نہیں بلکہ مساوات ،آزادی اور انسانی حقوق کا حصول اور تحفظ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :