دھوبی کا کتا گھر کا ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات 2 ستمبر 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

ہم  تو  بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ دھوبی کا کُتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے  یہ لفظ کُتا نہیں بلکہ کَتا ہے جس سے مراد کپڑے دھونے کا وہ ڈنڈا ہے جسے دھوبی  کپڑے  دھونے کے لیے استعمال  کرتا ہے۔اور دھوبی اس کے بغیر کپڑے نہیں دھو سکتا ۔لیکن  اصل لفظ کتکہ ہے جو بگڑ کر کتا بن گیا۔ پرانے وقتوں میں کپڑے گھاٹ پر دھوئے جاتے تھے اور کپڑوں کو صاف کرنے کے لیے دھوبی اک بھاری بھرکم ڈنڈے کا استعمال کیا کرتا تھا جس کو کتکہ کہا جاتا تھا۔


جب دھوبی کپڑے دھو کر گھاٹ سے کھر کی طرف چلتا تو سوچتا کہ باقی سب چیزیں ساتھ لے کر جاتا ہوں مگر کتکہ ساتھ اٹھا کر کیوں لے کر جاؤں   گھر پر اس کا کوئی کام بھی نہیں ۔ مگر اس کو کھاٹ پر بھی نہ چھوڑ سکتا تھا کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی چوری کر لے اس لیے وہ راستے میں جھاڑیوں میں خاص جگہ چھپا دیتا اور اگلے دن  وہاں سے  اٹھاتااور پھر کپڑے دھونے لگ جاتا  اور یہ اس طرح   ایک محاورہ   بن گیا کہ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔

(جاری ہے)

 
اب  سوال یہ پیدا ہوتا ہے  کہ پاکستان تو  پوری دنیا کی  آنکھ میں  کانٹے کی طرح تکلیف تو دیتا ہی ہے ۔ لیکن کچھ ہمارے ایسے حکمران بھی ہیں جو ان کی ہی زبان بولتے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک کوشش  اور خاص طور پر یورپی ممالک  پاکستا ن میں ایسے حکمران ڈھونڈ  کر  مسلط کرتے ہیں جو نا صرف ان کی ہاں میں ہاں ملائیں  بلکہ جو وہ غلط فیصلہ کرنے کو کہیں وہ بھی کریں ۔

اسی لیے  پاکستان  میں مورثی سیاست کو فروغ ملا، تا کہ باپ جو کام کرتا ہے بیٹا بھی اس کوآسانی سے  اسی شان و جلال سے جاری و ساری رکھ سکتا ہے ۔ اور اس طرح دو تین خاندان ہی صرف ملکی سیاست پر براجمان رہے ۔
افغانستان کی جنگ  میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بری شکست ہوئی ہے اور  اب کوئی  طالبان کا نام بھی لے تو ان کو برا لگتا ہے ۔ انگلینڈ کے وزیر اعظم  بورس جانسن جو کہ طالبان مخالف اتحاد کا  بڑا حامی ہونے کے ناطے ہر اس کے خلاف ہے جو ان کو شکست خوردہ کہےاور بورس جانسن نے طالبان کو نہ صرف ماننے سے انکار کیا ہے بلکہ ان پر سخت سے سخت پابندیاں لگانے کی سفارش کی ہے ۔

پہلے ہمارے تین بار کے منتخب وزیر اعظم  جناب نواز شریف صاحب   ان کے ہر حکم کو بجا لاتےتھے اور جو وہ نہ یاد رکھ پاتے اس کو پرچی پر لکھ کر لے جاتے اور من و عن وہی الفاظ پڑھتے جو نوٹس لے کر جاتے ۔ جیسے کہ ساری دنیا میں پاکستان آرمی نے  یہ ثابت کر دیا   یہاں تک کہ عالمی عدالت انصاف نے بھی  مستند مہر لگا دی کہ کلبوشن یادیو کو مجرم قرار دیا مگر نواز شریف صاحب اور ان کی فیملی کی زبان سے آج تک یہ نہیں کہتے سنا کہ کلبوشن یادیو مجرم ہے  پھر باری آتی ہے ابھینندن کی وہاں پر بھی زبان  بند رہتی ہے کو ئی بیان نہیں آتا ۔


کہتے ہیں جب برا وقت آتا ہے تو انسان بے بس ہو جاتا ہے اب نواز شریف صاحب پہلے تو انگلینڈ  بیماری کا بہانہ کر کے گئے اور ان کی 90 ٪ جائیدادیں بھی وہاں ہیں  اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ان کا ویزہ بھی نہیں لگ رہا ۔ اس لیے ان کی زبان نے  چپ  سادھ لی ہے کہ اگر طالبان کے خلاف کچھ بولا تو پاکستان کے لوگ ناراض ہوں گے اور اگر  حق میں بولتا ہے تو  بورس جانسن  ذلیل کرے گا  ۔ انگلیڈ میں جائیداد اور پاکستان میں بزنس سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں  اور جب انسان اس مقام تک آجائے تو اس کو بے بس کہتے ہیں  ۔ اور ایسے بے بس انسان کی  محاورہ تن کہتے ہیں " دھوبی کا کتا نہ گھرکا نہ گھاٹ کا" اللہ کریم ایسے حالات سے بچا کر رکھے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :