عالمی وباء کے بطن سے استبداد کا ظہور

ہفتہ 30 مئی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

ہرچند کہ کورونا وباء کے تدارک کی خاطر دنیا بھر میں نافذ لاک ڈاون کی سختیوں میں بتدریج نرمی کی جا رہی ہے لیکن یورپ سمیت پوری دنیا کی مملکتیں اپنی معیشت،ثقافت اور سیاسی کلچر میں بنیادی نوعیت کی چند تبدیلیوں کا اہتمام کرتی دیکھائی دیتی ہیں،امریکہ اور یورپ کے علاوہ گلف کی ریاستوں میں بھی نظام زندگی کی نئے خطوط پہ استواری کا عمل روز افزوں ہے۔

سعودی عرب نے مکہ مکرمہ کے سوا،یکم جون سے پورے ملک سے کرفیو اٹھا کے کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق 21 جون سے مکہ مکرمہ سے بھی کرفیو اٹھا لی جائے گی تاہم امسال حج اور عمرہ کے انعقاد کا امکان معدوم رہے گا،اگرچہ عمیق لاک ڈاون اور تیل کے بحران کی وجہ سے گلف کی معیشت دوہرے بحران میں گھری رہی لیکن اسی لاک ڈاون کی بدولت عرب حکمرانوں نے مسلح مزاحمتوں،داخلی تنازعات اور بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کو کافی حد تک کنٹرول کرکے اقتدار پہ اپنی گرفت مضبوط بنا لی۔

(جاری ہے)

یکم جون سے برطانیہ سمیت پورے یورپ میں شہریوں کی نقل و حمل پہ عائد پابندیاں ختم اور پرائمری درجہ کے سکول کھل جائیں گے لیکن وہاں بھی صرف زندگی کے بہتے دھارے پہ عائد پابندیاں ہی ختم نہیں ہوں گی بلکہ معاشی نظام اورسیاسی تصورات بھی بدل جائیں گے۔بی بی سی کے مطابق یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے کہا کہ”تاریخ میں کووڈ-19 وبا کو فیصلہ کن موڑ کے طور پر دیکھا جائے گا،جب دہائیوں بعد امریکہ دنیا کی رہنمائی کرتا دیکھائی نہیں دیتا۔

ماہرین جس ’ایشائی صدی‘ کی آمد کی پیشگوئی کرتے تھے اس کا شاید کورونا کی وبا کے دوران ظہور ہوچکا،اب یورپی ممالک کو اپنے مفادات کے پیش نظر چین کی نسبت کوئی ٹھوس پالیسی بنانا پڑے گی۔
پیر کے دن جرمن سفارت کاروں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا یورپی یونین اپنے مفادات اور قدروں کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ تزویراتی کلچر کو پروان چڑھائے”چین کا عروج متاثر کن ہے“ لیکن چین اور یورپ کے موجودہ تعلقات باہمی اعتماد اور شفافیت پر استوار نہیں ہیں“۔

یوروپی قیادت کی طرح امریکی دانشور بھی اس عالمی بحران کے دوران چین کی سیاسی حکمت عملی کی ستائش اور امریکی مقتدرہ کی کوتاہیوں کی نشاندہی کر کے دراصل لبرل ازم اور جمہوری آزادیوں سے نجات کی راہیں تلاش کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت دے گا کہ عالمی وباء کے دوران امریکی مقتدرہ وہ کردار کیوں ادا نہیں کر سکی جس کی توقع تھی؟اگرچہ امریکی فضائیہ کی موبائل میڈیکل فسیلیٹی کو اٹلی روانہ کرنے میں تاخیر کا فیصلہ بھی محل نظر ہے لیکن اسے بھی محض اتفاق نہیں کہہ سکتے کہ رواں ماہ کے اوائل میں جس آن ٹرمپ انتظامیہ اٹلی سمیت یورپ سے آنے والوں کے لئے اپنی سرحدیں بند کرنے کا اعلان کر رہی تھی،عین اسی وقت چین اپنا طبی عملہ، آلات اور امدادی سامان اٹلی کی طرف روانہ کر رہا تھا،اسے ہم چین کیلئے دانستہ میدان خالی کرنے کی حکمت عملی سے تعبر کر سکتے ہیں۔

امریکی صدرکے ناقدین کا خیال ہے کہ ابتداء میں ٹرمپ انتظامیہ خطرے کی سنگینی کا اعتراف کرنے میں ناکام رہی بلکہ اس بحران کو امریکی نظام کی فرضی برتری ثابت کرنے کے موقعہ کے طور پر دیکھتی رہی۔جیسا کہ ایشیائی امور کے دو ماہرین،کرٹ ایم کیمبل اور رش دوشی، نے حال ہی میں امریکی جریدے فارن افیئر میں اپنے مشترکہ مضمون میں لکھا کہ گذشتہ سات دہائیوں میں امریکہ کی عالمی رہنما ہونے کی حیثیت کا انحصار محض دولت اور فوجی برتری پر منحصر نہیں تھا بلکہ یہ حیثیت امریکی حکومت کو داخلی طور پر بہتر طرز حکمرانی کی وجہ سے حاصل قانونی جواز،انسانیت کی فلاح کے کاموں اور کسی بھی عالمی بحران کی صورت میں فوری اور مربوط رد عمل دینے کے صلاحیت پہ محمول تھی،کورونا وائرس کی وباء امریکہ کی عالمی برتری کے انہی تینوں عناصر کی آزمائش ثابت ہوئی۔

حیران کن طور پہ ایک طرف امریکی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو دوسری طرف چین نہایت سرگرمی کے ساتھ اُس خلا کو پْر کرنے میں مصروف رہا جو وبائی بحران میں امریکہ کی شعوری پسپائی سے پیدا ہوا۔کیمبل اور دوشی نے اپنے مضمون میں صورتحال کا موازنہ برطانیہ کے زوال سے کرتے ہوئے لکھا کہ سنہ 1956 میں نہر سوئز کے ناکام آپریشن نے برطانوی حکومت کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا تو اس کا عالمی طاقت ہونے کا طویل دور ختم ہوا۔

انہوں نے کہا، اگر اس وقت امریکہ کورونا وباء کے امتحان پر پورا نہیں اترتا تو اس کے لئے بھی نتیجہ وہی نکلے گا جو نہر سوئز کے ناکام آپریشن کے بعد برطانیہ کے لئے نکلا تھا۔
مغربی مبصرین کی نظر میں چین زیادہ قوم پرستی اور جماعتی آمریت کے ذریعے اپنی قوت کو مرتکز کر لے گا،انھیں ڈر ہے کہ مغرب کیلئے وباء کے عالمی اثرات اور اس کے بعد معاشی سست روی کے نتائج زیادہ سنگین ہوں گے جو امریکہ کی عالمی حیثیت پر مزید تباہ کْن اثرت مرتب کر سکتے ہیں۔

استبدادی نظام حکومت کے حامل چین کی عالمی برتری کے مبینہ خطرہ کو حقیقت کا روپ دینے اور مغرب کی سیماب صفت رائے عامہ پہ اثر ڈالنے کی خاطر امریکہ اور چین کے مابین جنگ کے امکانات کو بھی زیر بحث لائے جا رہا ہے۔
 2017 میں شائع ہونے والی پروفیسر گراہم ایلیس کی کتاب (Destined For War: Can America and China Avoid Thucydides Trap) جس نے چند ہفتوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی تصانیف کا مقام حاصل کیا،دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد ایک بار پھر ہارورڈ یونیورسٹی کے بین الاقوامی امور کے پروفیسرگراہم ایلیسن کی اُسی کتاب کی چرچا کر کے تمام پالیسی سازوں،ماہرین تعلیم اور صحافیوں کو اسکے مطالعہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کووڈ 19 کو ’چینی وائرس‘ کہہ کر پکارا تو امریکی جریدے”سپیکٹیٹر“نے لکھا”کورونا کے ہاتھوں پہلی ہلاکت اُس امریکی سوچ کی ہوئی،جو چین کے عالمی طاقت بننے کی حقیقت کو ’باہمی مفادات‘کے ذریعے قابو کرنے پہ محمول تھی“۔جریدے نے پروفیسر گراہم ایلیسن کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ”صدر ٹرمپ کا یہ بیان ’توسیڈائڈز ٹریپ‘ یعنی ایک ابھرتی عالمی طاقت (چین) اور ایک موجود عالمی طاقت (امریکہ) کے درمیان نہ ٹلنے والی جنگ کے زمرے میں آتا ہے“۔

جب 26 دسمبر 1991 کو سوویت یونین بکھرا اور دنیا کے نقشہ پر امریکہ واحد سپرپاور بن کر ابھرا تو یہاں یہ سوچ پروان چڑھنے لگی کہ اب دنیا میں اس کے سامنے کوئی نظریاتی حریف باقی نہیں بچا۔امریکی فلسفی فرانسیس فوکویاما کا ’اینڈ آف ہسٹری‘ (تاریخ کا اختتام) کے عنوان سے مضمون شائع ہوا جس کا لب لباب یہ تھا کہ سوویت یونین کے اختتام سے آزاد خیالی کا نظریاتی متبادل ختم ہوگیا،انسان نے نمائندہ حکومتیں، آزاد منڈی اور صارفین پہ مشتمل کنزیومر سوسائٹی جیسے تہذیبی اہدافحاصل کر لئے۔

لیکن صرف تیس سالوں کے اندر نمائندہ حکومتوں اور آزاد منڈیوں پہ مشتمل مغرب کا سرمایادارانہ کلچر بیکار اور یک جماعتی آمریت کا استبدادی نظام مثالیت کا مقام حاصل کرنے لگا۔شاید مغرب کی جمہوری ریاستیں استبدادی نظام کو اپنانے کی خواہش کے پیش نظر ہی چین کی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کے پیش کرنے میں سرگرداں دیکھائی دیتی ہیں۔
اس عالمی وبا کے دوران دانستہ طور پر یہ نظریاتی بحث چھیڑی گئی کہ امریکہ جو لبرل ڈیموکریسی کا داعی تھا عالمی وباء کے دوران دنیا کو موثر قیادت فراہم نہیں کر سکا،اس کے برعکس چین کو یک جماعتی آمریت نے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ بڑے علاقہ میں بلاجھجھک لاک ڈاوٴن کر کے وائرس پر جلد قابو پالے۔

پروفیسر گراہم ایلیسن نے کہا کہ یک جماعتی آمرانہ نظام نے انتہائی قابلیت کے ساتھ اپنے شہریوں کے جینے کے بنیادی حق کا تحفظ کر لیا جبکہ جمہوری مملکتیں تذبذب اور سست روئی کا شکار رہیں۔مبینہ کورونا وائرس وباء کے دوران لبرل ازم اور جمہوری اصولوں کی پابند امریکی اتھارٹی کی مجبوریوں کو نمایاں کرنے کی بحث) (Rhetoricدراصل جمہوریت اور مارکیٹ اکانومی کی ناکامی کا بلواسطہ اعتراف اور استبدادی طرز حکومت کے تحت نشنل اکانومی کی طرف بڑھنے کی شعوری کوشش دیکھائی دیتی ہے۔

بلاشبہ استبدادی طرز حکمرانی کے بغیر شخصی،نظری اور مذہبی آزادیوں کی تحدید اور عالمی تہذیب کا احیا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔اس لئے ایک مخصوص نفسیاتی ماحول میں چین کی تعریف کر کے پوری دنیا انسانیت کو استبداد کے فوائد گنوائے جا رہے ہیں مگر نہایت چالاکی کے ساتھ اس بحث میں اصل ہدف یعنی اسلام کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :