مہذب دنیا میں نسلی تفریق کا المیہ

منگل 16 جون 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

امریکہ ریاست منیاسٹا کے شہر میناپولس میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والے فسادات اگرچہ کوئی انہونی بات نہیں تھی کیونکہ اس سے قبل بھی امریکی سماج کم و بیش ڈیڑھ صدی تک اسی نوع کی تلخیوں کا کرب جھیلتا رہا لیکن حالیہ فسادات کو اگر اِس عہدکے تناظر میں رکھ کے دیکھیں گے تو یہ ایشو اپنے مقاصد و نتائج کے اعتبار سے ماضی کے فسادات کی نسبت مختلف نظر آئے گا،اٹھارویں اور انیسویں صدی میں سفید فام نسلیں امریکی سرزمین پہ غالب قوم بن کے اتریں اور یہاں مستقل قیام کو یقینی بنانے کی خاطر انہوں نے اصل زمین زادوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں اپنی بقاء تلاش کی لیکن اِس وقت امریکہ میں گوری نسلیں خود بقاء کے مسائل سے دوچار ہیں،سفید فام بتدریج کم اوریہاں ہسپانوی،افریقی اور ایشیائی امریکن کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے،سفید فاموں کو اب،دیگر براعظموں سے نقل مکانی کر کے آنے والوں کی اولادیں،مارکیٹ اکانومی اورجمہوری نظام کی بدولت معاشی وسائل اور سیاسی اقتدار پہ غلبہ پاتی دیکھائی دیتی ہیں،بارک اوباما کے منصب صدرات تک پہنچنے کے عمل کو بھی سفید فام آبادی نے اپنے فطری زوال سے تعبیر کیا تھا،شاید اسی لئے مخصوص تاریخی تناظر میں سفید فام آبادی کے اندر مٹ جانے کا احساس گہرا ہو رہا ہے اور یہی اندیشہ انہیں ایک بار پھر دوسری نسلوں کے خلاف تشدد پہ اُکسا رہا ہے،خاص کر مڈویسٹ کے وہ سفید فام جنہیں معاشی کمزرویوں اور سیاسی پسپائی کی اذیت نے گھیرا ہوا ہے،شدید نوعیت کے عدم تحفظ کا شکار ہیں،یہی لوگ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نسلی تفریق پہ مبنی پالیسیز کی شدومد سے حمایت کرتے ہیں جو بظاہر امریکی وسائل اور اقتدار اعلی پہ سفیدفام امریکیوں کی بالادستی قائم رکھنے کی خاطر مارکیٹ اکانومی اور جمہوریت کے جھنجھٹ سے نجات پانے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دست قضا نے اُن سفید فام امریکیوں کو مٹانے کا ارادہ کر لیا،دو صدیاں قبل جنہوں نے اس خطہ کے اصل باشندوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کے براعظم امریکہ کے تمام وسائل پہ تصرف پا لیا تھا۔جارج فلائیڈ کی پولیس اہلکار کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد بھڑکنے والے فسادات کے دوران بھی مٹ جانے کے خوف میں مبتلا انہی سفید فام نسل پرستوں نے اشتعال انگیز نعروں اور ٹویٹس کے ذریعے ہنگاموں کو مہمیز دیکر تعصبات کے دائرہ کو پھیل دیا لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں امریکی ریاست کے لئے پرانے طور طریقوں کے ذریعے کروڑوں سیاہ فام اور رنگ دار امریکیوں کی نسل کشی یا انہیں بنیادی حقوق سے محروم کرنا ممکن نہیں ہو گا،چنانچہ فسادات کی دھند میں امریکی مقتدرہ وہ کردار ادا نہ کر سکی جو انیسویں صدی میں کیا کرتی تھی۔

واضح رہے کہ انیسویں صدی میں جب امریکی معاشرہ سیاسی اور تہذیبی ارتقاء کے عمل سے گزر رہا تھا،اس وقت اصل زمین زادوں(ریڈانڈین)کی نسل کشی ریاستی پالیسی کا محور تھی،سنہ1852اور1859 کے درمیان کیلفورنیا میں ریاستی مقتدرہ نے کھلے عام ریڈ انڈین کی نسلی کشی کی مہم کی سرپرستی کی تھی،اس مقصد کے لئے 500 ہزار ڈالرمختص کئے گئے جس میں زیادہ تر وسائل فیڈرل گورنمنٹ نے فراہم کئے،اس عہدکے اہل دانش نے ریڈ انڈین کی نسل کشی کو ناقابل مفاہمت تہذیبی تصادم قرار دیکر اسکے وقوع پذیر ہونے کو ناگزیر باور کرانے میں حجاب محسوس نہ کی۔

حتی کہ کیلیفورنیا کے گورنر پیٹربرنٹ نے پیشگوئی کی کہ دو نسلی گروہوں کے درمیان جاری جنگ،ریڈانڈین،کے خاتمہ پہ منتج ہوگی۔ California governor Peter Burnett even predicted: "That a war of extermination will continue to be waged between the two races until the Indian race becomes extinct۔
پچھلے ڈیڑھ سو سالوں میں امریکہ کے مقامی ریڈ انڈین باشندوں کی نسل کشی اور سیاہ فام امریکن کے قتل عام کی ریاستی سکیم کو کور کرنے کی خاطر متعدد انکوائری رپوٹس مرتب اور درجنوں کتابیں لکھی گئی،جن میں( Genocide and Vendetta: The Round Valley Wars in Northern California by Lynwood Carranco and Estle Beard, Murder State: California's Native American Genocide, 18461873 by Brendan C. Lindsay, and An American Genocide: The United States and the California Indian Catastrophe, 18461873 by Benjamin Madley ).نمایاں ہیں،بنجمن مڈلے نے لکھاکہ 1849 اور 1870 کے درمیان اکیس سالوں میں 16 ہزار ریڈ انڈین قتل ہوئے،جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔

پروفیسر ایڈکاسٹیلو نے کیلفورنیا میں سونا دریافت ہونے کی غیر متوقع خوشی کے دو سالوں میں ٹارگٹ کلنگ،مسلح جھتوں اور مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک لاکھ ریڈ انڈین کے مارے جانے کا تذکر ہ کیا،کم و بیش سو سال کے اندر امریکہ کی گداز نسلیں سفیدفاموں کے ہاتھوں معدوم ہو گئیں تاہم محقیقین کی اکثریت مقامی آبادی کے خلاف ریاستی جرائم کو دو طرفہ ٹریجڈی کا رنگ دینے میں مصروف رہی۔

انیسویں صدی کے اختتام تک سفیدفاموں نے امریکی سرزمین اور وسائل پہ قبضہ مکمل کر کے اسکی تہذیبی و ثقافتی شناخت بدلنے میں کامیابی پا لی۔بیسیوں صدی کے آغاز پہ سنہ 1906 میں اٹلانٹا کے فسادات کالے اور گورے کے مابین معاشی و سیاسی مقابلہ کی جدلیات کا پتہ دیتے ہیں،اسی زمانہ میں ساوتھ میں کالے اور گورے کے درمیان ملازمتوں کے حصول میں مقابلہ اور کاروباری رقابتوں نے شدت اختیار کر لی تھی،گرین ووڈ میں سیاہ فاموں کی کامیابیوں کے ردعمل میں گورے آمادہ باجنگ ہونے لگے،انہی دنوں ایک 19 سالہ لڑے کے قتل کے بعد پھوٹنے والے ہنگاموں میں26 کالے اور13 گورے ہلاک ہو گئے،موٴرخین نے سو سے زیادہ ایسے واقعات کی تفصیلات بیان کی ہیں جس میں بپھرے ہوئے ہجوم نے ازخود فیصلہ کر کے معصوم لوگوں کی سڑکوں پہ سزائیں دیں۔

سنہ1919 میں اوماہا اور1921 میں شیکاگو کے ابنوہی تشدد نے امریکی معاشرہ میں سیاہ اور سفید فام نسلوں کے مابین نفرتوں کی دیوار مزید بلند کر دی۔تاہم سرد جنگ کی ضرورتوں اور سرمایا دارانہ نظام کے تقاضوں کے تحت پنپنے والی جمہوری آزادیوں اورانسانی حقوق کی تحریکوں کی بدولت امریکہ مقتدرہ نے منظم نسلی تعصابات کی شدت پہ کسی حد تک قابو پا لیا لیکن نسلی تفریق کے رجحان کا مطلق خاتمہ ممکن نہ ہو سکا،اسی دوران بھی وقفہ وقفہ سے سیاہ فاموں کے خلاف نسلی تشدد کی لہریں سر اٹھاتی رہیں۔

سنہ1992 میں روزنی کنگ نامی سیاہ فام کی ہلاکت کے بعد پھوٹنے والے فسادات،جنہیں شہری حقوق کی تحریک کا نام دیا گیا اورسنہ 2015 میں فرگوسن شہر میں بھڑک اٹھنے والے پُرتشدد مظاہروں کا محرک بھی وہ منظم نسلی تعصب تھا جسے سفیدفام اپنی روح سے الگ نہیں کر سکتے۔میناپولس واقعہ پہ عوامی ردعمل کی شدت بتا رہی ہے کہ سفید فام نسلی تعصبات کی جنگ ہار رہے ہیں،حالیہ فسادات کے دوران کولمبس کا مجسمہ گرانے کی جسارات سفیدفاموں کی پسپائی کی علامت نظر آتی ہے،نسلی تفریق پہ مبنی ان نفرت انگیز رویوں کی لہریں اب یوروپ تک پھیل گئی ہیں،یہاں بھی نسلی تفریق کے خلاف نکلنے والی ریلیون پہ نسل پرستوں کے حملے جاری ہیں کیونکہ سفیدفام نسل کے مٹ جانے کا احساس یوروپ میں بھی پایا جاتا ہے،برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنی الودعی تقریب میں نہایت کرب انگیز لہجہ میں کہا تھا”مجھے خدشہ ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں یہاں ایشیائی باشندے حکمراں ہوں گے۔

علی ہذالقیاس،افریقی،ہسپانوی اور ایشیائی باشندوں کی بڑے پیمانے پہ امریکہ کی طرف نقل مکانی کے بعد وہاں کے قدامت پسند سفید فام لوگوں کے اندر معدوم ہو جانے کا خوف بڑھتا جا رہا ہے ،اسی خدشہ کے پیش نظر امریکہ مقتدرہ بھی ملک کے اقتدار اعلی اور پالیسی امور پہ سفیدفام لوگوں کی اجارہ داری قائم رکھنے کی خاطر جمہوریت اور مساوات کے تصورات سے نجات پانے میں سرگرداں ہے۔لاریبکسی بھی نسل کی تقدیرانسان کی قوت عمل اور استعداد عقل سے ماورا ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :