پولیس ریگولیٹ نہیں ہو سکتی؟

منگل 21 جولائی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

جب سے پولیس ایکٹ دوہزارسترہ کے تحت پولیس فورس کو سول انتظامیہ کی نگرانی سے نجات اورغیر محدود داخلی خود مختیاری ملی اُسی دن سے پولیس اپنے اجتماعی اور انفرادی رویّوں کو کسی ایسے خاص نظم وضبط میں نہیں ڈھال سکی جو اسکے پروفشنل رویّوں کی مستقل شناخت بن سکتا،امر واقعہ بھی یہی ہے کہ پولیس افسران پرانی شناخت سے پیچھا چھڑانے کی خاطر نت نئے انداز میں خود کو متعارف کرانے کی کوشش میں کئی ایسے حیران کن کارنامے سرانجام دینے لگے ہیں جو نہ صرف ان کے منصب کے شایان شان نہیں ہوتے بلکہ خلاف عقل بھی سمجھے جاتے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ پولیس کمانڈ،اپنی فورس کی پیشہ ورانہ مہارت کو بہتر بناکے معاشرے کو کچھ ڈلیور کرنے کی بجائے ادنی سیاستدانوں کی طرح مصنوعی طور طریقوں سے اپنی امیج سازی میں سرگرداں نظر آتے ہیں،چنانچہ پولیس اب میعاری سروسیسز فراہم کرنے والی کمیونٹی فورس بننے کی بجائے محض پروپگنڈہ کے ذریعے حاکمانہ شان و شوکت کی خُوگر قوت بننا بنانا چاہتی ہے،افسوس،یہ صورت حال خود فورس کے لئے تباہ کن مستقبل کا پتہ دیتی ہے۔

(جاری ہے)

کنفیوشس نے کہا تھا کہ فطرت خاموش بہاو کی طرح،کوئی دعوی کئے بغیر،نہایت خاموشی کے ساتھ اپنا فرض نبھاتی ہے،فطرت کی مانند خاموشی کے ساتھ کام کرنے کی عادت ڈالیں“۔ بلاشبہ،اختیارات کی طاقت اور پیشہ وارانہ ضبط وتحمل دراصل سکون و اضطراب کا ملاپ ہوتا ہے،طاقت اپنے اظہار کے لئے قانون و اخلاق کی ہر حد عبور کرنے پہ آمادہ رہتی ہے لیکن مہارت چند اصولوں کی مدد سے مقصد کا حصول ممکن بنا لیتی ہے،پیشہ وارانہ مہارت گویا اوپر چڑھنے والی سیڑھی ہے یا جذباتی رجحانات اور قابو کرنے والے دماغ کے مابین اتحاد کا گداز عمل۔

سنہ دوہزار تک پولیس جب تک مربوط سول انتظام ڈھانچہ کے اندر رہ کر کام کرتی رہی تو اس وقت تک اس کی خوبیوں اور خامیوں کے نتائج گورنمنٹ کی مجموعی کارکردگی کا جُز بن جاتے تھے، اس لئے وہ ہدف تنقیدبنتی نہ اسے براہ راست عوام کے ساتھ تصادم جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا،تب ضلعی انتظامیہ کا کُشن عوامی ردعمل کا سارا بوجھ سہہ لیتا تھا لیکن جب سے پولیس نے کامل خود مختیاری حاصل کرکے ریاست کے اندر اپنے لئے جداگانہ کردار چُنا اس دن سے اپنی خامیوں کا سارا وبال اور مخالفانہ عوامی ردعمل کا سارا بوجھ خود اپنے کندھوں پہ اٹھا لیا،اب پولیس کی کمانڈ کے پاس اپنی منفی یا مثبت کارکردگی کا بوجھ کسی اور جانب منتقل کرنے اور عوام سے روا رکھے جانے والے سلوک کی پردہ پوشی کا کوئی عذر باقی نہیں بچا۔

اس وقت مشکل یہ ہے کہ پولیس کی اجتماعی دانش نئے حالات میں کام کرنے کے کوئی اصول متعین کرسکی نہ ان سماجی اور انتظامی عوامل کا ادراک کر سکی جو بتدریج انہیں اپنے طلسماتی حصار میں لیتے نظر آتے ہیں۔لیجنڈ پولیس افسر ذولفقار چیمہ نے اپنے حالیہ کالم میں پولیس افسران کے انہی مہمل رویّوں کی نہایت دلنشیں انداز میں تصویر کشی کر کے پولیس فورس سے سچی خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔

خاص طور پہ انہوں نے پولیس شہدا کے پسماندگان کے ساتھ مصنوعی ہمدردی کے مناظر کی عکس بندی کر کے سوشل میڈیا پہ تشہیر کرنے کے علاوہ بگڑے ہوئے امیرزادوں کی طرح انتہائی نامناسب لباس زیب تن کر کے جوانوں کو نصیحت فرمانے جیسے کئی محیرالعقول واقعات کا تذکرہ بھی کیا۔ذولفقارچیمہ صاحب نے لکھا”جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں بہت سے افسروں نے اپنے اضلاع اور ڈویژنوں کو تھانیداروں کے سپرد کرکے خود فیس بک پولیسنگ شروع کر دی۔

چند ریٹائرڈ آئی جی پی صاحبان نے مجھے کئی بار کہا کہ وہ ڈی پی او یا ڈی آئی جی جو اپنے ضلع کے شہید پولیس اہلکاروں کی بیٹیوں کی شادیوں میں مالی معاونت کرتے ہیں،وہ اپنے اِس فرض کی ادائیگی کی فلمیں بنا کر سوشل میڈیا پر چلا کر اس کا ڈھنڈوار کیوں پیٹتے ہیں ؟ایسا کرنے سے شہداء اور ان کی بچوں کی توہین ہوتی ہے۔کیا وہ اپنی بہن، بیٹیوں کی شادیوں کی فلمیں بنا کرسوشل میڈیا پر اپ لوڈکر سکتے ہیں؟ہرگز نہیں ۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ شہید کی بچی کو اپنی بیٹی سمجھ کر شادی میں شریک نہیں ہوتے بلکہ اس(مقدس قدر)کو وہ پراپیگنڈہ کے ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پہ کئی روز تک ویڈیوکلپ چلتا رہا،جس میں ایک ڈی پی او پولیس لائینز میں افسروں کو فرمودات سنا رہے ہیں،تقریب کے سامعین تو با وردی ہیں مگر موصوف بنیان پہن کر(جلوا افروز ہو گئے) تقریر فرما رہے ہیں۔

دوسرے ویڈیو کلپ میں ایک ڈی پی او مستحقین میں آٹے کے تھیلے بانٹتے نظر آئے لیکن اسی روز کے اخبارات میں یہ خبر بھی نظر سے گزری کہ مقامی فلور مل کے مالک نے شکایت کی ہے کہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او اس کی فلورمل سے زبردستی آٹے کے تین سو تھیلے اس لئے اٹھا کر لے گئے کہ ڈی پی او صاحب نے تقسیم کرنے ہیں۔ایک اور ڈی پی او کا کلپ شئیر ہوا، وہ غالبََا داد رسی کے لئے کسی مدعیہ کے گھر گئے توخاتون خانہ کے برابر والی کرسی (جس پر وہ بیٹھا ہو ا تھا) چھوڑکر نیچے پیروں میں آ بیٹھے۔

مگر یہ درویش صفت افسر اپنی عاجزی و انکساری کے منظر کو فلمانے کے لئے کیمرہ مین ساتھ لانا نہیں بھولے۔بعد میں یہ سن کے دْکھ ہوا کہ وہی خاتون (ڈی پی اوجسکے قدموں میں بیٹھا ہواتھا) کچھ دنوں بعد جب ڈی پی او آفس ملنے گئی تو وہاں اْسے ملاقات کا وقت ملا نہ بیٹھنے کے لئے کسی نے کرسی پیش کی۔فیس بک پر ایک اور کلپ میں کوئی تھانیدار دیہاڑی دار مزدوروں کی لائن لگواکر ان میں پیسے تقسیم کرتا نظر آ رہا ہے لیکن اس نیکی کو وہ دریا میں یا کھوہ کھاتے نہیں ڈالنا چاہتا ،اِس لئے مْووی میکر ساتھ لے کر آیا تاکہ ان تاریخی لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا جائے۔

ایک انسپکٹر یا سب انسپکٹر کی تنخواہ تو یقینا اتنی نہیں ہوتی کہ گھر کے اخراجات چلانے کے بعد بھی اتنی رقم بچ جائے کہ وہ حاتم طائی بن کر غریبوں میں بانٹتا پھرے“۔علی ہذالقیاس،سوشل میڈیا پہ ہمہ وقت ایسی درجنوں ویڈیوز وائرل رہتی ہیں جس میں پولیس افسران اپنا اصل کام،یعنی جرائم کا قلع قمع،کرنے کی بجائے سوشل سروسیز کی فراہمی کے ذریعے اپنی امیج سازی میں مصروف نظر آتے ہیں،اگر کوئی ناقد صحافی پولیس کی ان سماجی سرگرمیوں کے اعداد و شمار اکٹھے کر کے محاسبہ کرتا تو یقیناً اسے ڈی ایم جی افسران کا پروردہ اور پولیس کا ازلی دشمن سمجھ کے ایسی تنقید کو مسترد کر دیا جاتا لیکن اب ذولفقار چیمہ جیسے بے داغ ماضی کے حامل پولیس افسر کی جانب سے کرائم فائٹنگ کی بجائے سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے اور سوشل میڈیا کے ذریعے سستی شہرت حاصل کرنے والے پولیس افسران کے طرز عمل پہ گرفت کو سچی ہمدردی اور نادر مشورہ سمجھ کے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وسعت اور سوشل میڈیا کے اس طسلماتی عہد میں فورسیسز کی جانب سے عوام کے ساتھ روا رکھے جانے والے طرز عمل اور پولیس کی کارکردگی کو جانچنے کے کئی ہمہ جہت نظام فعال ہوئے جو رفتہ رفتہ جیک اینڈ بیلنس کا ایسا حساس اور خودکار نظام بنتے گئے جنہیں کسی بھی شاطر کیلئے جُل دینا ممکن نہیں رہا۔مگر افسوس کہ ہماری پولیس، پیشہ ورانہ مہارت کو بڑھانے کی خاطر احتساب کے داخلی و خارجی نظام کو خوش آمدید کہنے کی بجائے ادارہ جاتی تعصب کو مضبوط کرنے میں جُت گئی ہے۔

ظلم کرنے والے اہلکاروں کو نشان عبرت بنانے کی بجائے امر تہکالی کیس میں ملوث دو تھانیداروں کو بچانے کی خاطر خیبر پختون خوا پولیس بیماری کے بہانے تراش کے انہیں جوڈیشل کمشن میں بیان ریکارڈ کرانے سے روک رہی ہے۔اس سے بھی بڑھ کر عامر تہکالی کیس کی گونج ابھی فضاوں میں تحلیل نہیں ہوئی تھی کہ پشاور سربند پولیس نے شہری کو قتل کرنے کے بعد پولیس مقابلہ ظاہر کے بیگناہ کے خون ناحق کو دبانے کی جسارت کر ڈالی۔پولیس کے اسی رویہ کو دیکھ کے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام وہاں پولیس آمدکو خوش آمدید کہنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :