نئے صوبوں کے مطالبات اور اقتدار کے تقاضے

جمعرات 6 اگست 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

مملکت خداداد کے طول و عرض میں نئے صوبوں کے قیام کی گونج مدت سے سنائی دیتی آ رہی ہے لیکن ہماری قومی لیڈر شپ اور اجتماعی دانش اُن اہم انتظامی امورکو سلجھانے کی صلاحیت سے عاری نکلی،جن کی تدوین ریاستی ڈھانچہ کے ارتقاء کے لئے ناگزیر تھی۔تقسیم ہند کے بعد مشرقی پنجاب،جو رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے ہمارے پنجاب سے چھوٹا تھا،کو تین صوبوں میں منقسم کر کے انتظامی طور پہ زیادہ منظم بنا لیا گیا لیکن سات دہائیوں سے ہمارے ارباب بست و کشاد نئے انتظامی یونٹس بنانے کی جسارت نہیں کر سکے۔

بدقسمتی سے ایک تو ہمیں ایسی مقبول قومی لیڈرشپ میسر نہیں آئی جو اقتدار میں شریک تمام گروہوں کے لئے یکساں قابل اعتماد ہوتی دوسرے نچلی سطح پہ پختہ کار سیاسی کارکنوں کی کمی کی وجہ سے رائے عامہ کی سطح پہ بھی کوئی ایسی طاقتور لہر نہیں اٹھ سکی جسے مسائل کی تفہیم کا محرک بنایا جاتا،چنانچہ ہماری ریاست اور سماج،دونوں،متضاد راہوں کی طرف محو سفر ہو کے ہر آن قومی ہم آہنگی کے تصور سے دور ہوتے گئے۔

(جاری ہے)

ذہنی تقسیم کے اس ماحول میں مذہبی جماعتوں کی نظریاتی تحریکیں مملکت کی تنظیم کا کوئی متبادل فارمولہ پیش کرنے کی بجائے عوامی جذبات میں مد وجز پیدا کرنے کی اُسی فرسودہ جدلیات میں الجھی رہیں جو صدیوں سے ریاستی مقاصد کا ٹول سمجھی جاتی ہیں۔اسی بے سمت ہجوم کی غیر مربوط سرگرمیوں نے انگریز سے ورثہ میں ملنے والے ریاستی نظام سمیت ان قدیم سماجی اقدار کو بھی تہس نہس کرڈالہ جو ہماری تہذیبی زندگی کو ریگولیٹ کرنے کا قدرتی وسیلہ تھیں،اب سماج کو منظم کرنے والا سیاسی عمل بیکار اور ریاستی تمدن کی تدوین میں بروکار آنے والاسماجی شعور التباسات کی دھند میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔

اسی پیچیدہ اور ناقابل یقین صورت حال میں وہ عمرانی معاہدہ کم و بیش تحلیل ہو گیا جو فرد اور ریاست کے حقوق و فرائض کی ضمانت دیتا تھا،چنانچہ ہر ادنی و اعلی معاملہ کو سنوارنے کے لئے ہم سب طاقت کے مراکز کی طرف دیکھتے ہیں۔ہمیں اس حال تک پہنچانے کی ذمہ داری معاشرے کی رہنمائی کرنے والے اُن اہل دانش،سیاسدانوں اور صاحبان جبہ و دستار پہ عائد ہو گی،ستّر سالوں میں جو اپنے طبقاتی مفادات اور مسلکی تعصبات سے اوپر اٹھ کے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کر سکے۔

قومی لیڈر شپ عالمی تناظر میں مملکت کی بقاء کے امکانات ڈھونڈنے کی بجائے کنویں کے منڈک کی طرح مقامی تعصبات کی محوری گردشوں میں الجھ کے رہ گئی اور ہمارا سماج بھی بنی نوع انسان کے اس ہمہ گیر ارتقاء کا جُز نہ بن سکا جس سے ہم آہنگ رہنے کی صورت میں ہی ہم اقوام عالم کے ساتھ ہم قدم رہ سکتے تھے۔اگر ہم روزمرہ زندگی کے معمولات کا مشاہدہ کریں تو ہمیں سرکاری اداروں کے اہلکار فرض کی ادائیگی کی بجائے اپنی مہارت کو معاشرے کا لہو چوسنے کیلئے استعمال کرتے نظر آئیں گے اورشہریوں کی اکثریت بھی قومی امانتوں کے تحفظ کی فکر کرنے کی بجائے قانونی نظام کو اپنے ادنی مفادات کے لئے بروکار لانے میں سرگرداں دیکھائی دے گی۔

ذہنی زوال کی اس ماحول میں قومی ایشوز پہ کسی اتفاق رائے تک پہنچنے کی بجائے باہمی بداعتمادی اور بے یقینی کی ایسی مہلک فضا پروان چڑھتی رہی جس نے تہذیب کے فعال دھارے کی رخ گردانی کر کے عام لوگوں کو نسلی،لسانی اور طبقاتی تعصبات کے دائروں میں منقسم رہنے پہ مجبور کر دیا۔سوال یہ ہے کہ اس افسردہ کن صورت حال میں سماجی نشو ونما اور توانا سیاسی قیادت کیسے پیدا ہو گی؟ْافسوس کہ آزادی کی صبح نور دیکھنے کے باوجود ہمارے سماج کو پھر انہی مایوس وڈیروں کے سامنے سرنگوں رکھنا پڑا جو صدیوں سے انسانیت کا استحصال کرتے آئے۔

سندھ میں جی ایم سید کی قیادت میں وڈیروں نے سندھی وطن پرستی کا پرچم اٹھا کے علیحدگی کا ناقوس بجایا(واضح رہے،جی ایم سید سندھیوں کی نہیں ہمیشہ سندھ کی بات کرتے تھے)خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے خوانین اور قبائلی سرداروں نے بھی اپنی نوخیز نسلوں کو نسل پرستی کی تاریک راہوں کی طرف دھکیل دیا،سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی عظیم اکثریت نے چھوٹے صوبوں کے عوام کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر مصلحت کی بکل ماری لی۔

مستزاد یہ کہ جب ہمارے انتظامی افسران اور سیاسی بزرجمہروں نے صوبائی سرحدات پہ ناکے لگا کے چھوٹے صوبوں سے آنے والے شہریوں سے شناخت طلب کی تو اس عمل نے ذہنی تفریق کی خلیج کو مزید بڑھا دیا،خیبر پختون خوا اورسندھ و بلوچستان سے پنجاب میں داخل ہونے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے،جیسے وہ کسی دوسری مملکت میں داخل ہو رہے ہوں۔ان ستّر سالوں میں ہماری ریاست دور افتادہ علاقوں کے عوام تک زندگی کی بنیادی سہولیات پہنچا سکی نہ ہماری انتظامی اتھارٹی ان کے شہری حقوق کا تحفظ ممکن بنا سکی،جنوبی پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کی وسیع آبادیاں آج بھی طاقتور وڈیروں کے رحم و کرم پہ ہیں۔

جس حکومت کواپنی جغرافیائی حدود پہ مناسب کنٹرول نہ ہو اور وہ اپنے شہریوں کو جان و مال اور عزت کا تحفظ نہ دے سکے تو ایسی ریاست کے ساتھ شہریوں کی وفاداری کا رشتہ کمزرو ہو جاتا ہے،چونکہ ہماری مملکت جغرافیائی حدود کے اندر بسنے والے تمام شہریوں تک رسائی نہیں رکھتی،اس لئے عوام کی بڑی تعداد اُن وڈیروں سرداراوں اور خوانین کو اپنا حاکم ماننے پہ مجبور ہے،جن کی وفاداری اقتدار سے مشروط ہے۔

اسی مشکل سے نجات کے لئے پیسے ہوئے طبقات نے ہمیشہ نئے انتظامی یونٹس کی تخلیق کے مطالبات اٹھائے لیکن ریاست نے مجبور لوگوں کے جائز مطالبات کو سرد مہری کے ساتھ ٹھکرا دیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وڈیرہ شاہی سے نجات اور ریاست کی انتظامی گرفت کو مضبوط بنانے کے لئے نئے انتظامی یونٹس کا قیام ازبس ناگزیر تھا لیکن روز اول سے سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ پہ فائز فرسودہ جاگیرداروں اور طاقت کے مراکز پہ قابض بے رحم وڈیروں نے فیصلہ سازی کے عمل کو اپنے طبقاتی مفادات کے تابع رکھنے کی خاطر مملکت کو انتظامی طور پہ مضبوط بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا۔

جنوبی پنجاب کے عوام کی آروزوں کے محور سرائیکی صوبہ کے قیام کی راستے میں یہاں کے وہ روایتی پیر،وڈیرے اور سردار حائل ہیں جو انہی مظلوموں کے ووٹوں سے منتخب ہو کے ایوان اقتدار تک پہنچتے ہیں،انہیں پتہ ہے کہ نئے انتظامی یونٹس کے قیام کی صورت میں وسیب کے طول و ارض پہ ریاستی کی رٹ مضبوط ہوئی تو باصلاحیت شہری ابھر کے آگے آ جائیں گے۔پشتون اور بلوچ نسل پرست پنجاب کو بلیک میل کرنے کی خاطر سرائیکی صوبہ کی زبانی حمایت تو کرتے ہیں لیکن عملاً وہ ڈیرہ اسماعیل خان اور جعفرآباد ڈویژن کو سرنڈر کرنے کے روادار نہیں۔

پیپلزپارٹی جس نے اپنی سیاست میں ہمیشہ سندھ کارڈ کو استعمال کیا،اسے بھی سرائیکی صوبہ کے قیام کی صورت میں سندھ کی تقسیم دیکھائی دیتی ہے،اس لئے وہ ووٹ بٹور کی خاطر طریقہ کار کے ہتھکنڈوں کے سوا کسی صورت بھی کھلے دل کے ساتھ سرائیکی صوبہ کے قیام کی حمایت نہیں کرتی۔الغرض فیصلہ سازی کے عمل میں شریک تمام قوتیں نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت ہیں۔

بلاشبہ سیاست میں ہر تبدیلی طاقت کی ایما پہ آتی ہے اس لئے سرائیکی صوبہ کے قیام کے حامی گروہ جب تک طاقت کے مراکز تک رسائی نہیں پاتے اس وقت تک انکا ہر مطالبہ صدائے بازگشت ثابت ہو گا۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سترویں صدی میں احمد شاہ ابدالی نے جب اس خطہ کی عنان سمبھالی تو اس نے کابل،غزنی،پشاور،لاہور اور ملتان کے علاوہ ڈیرہ جات کو بھی صوبہ بنایا لیکن بعدازاں انہیں ڈیرہ جات کو ملتان صوبہ میں ضم کرنا پڑا کیونکہ ملتان کے بغیر اس خطہ کی فطری مرکزیت کا تصور ممکن نہیں تھا۔مگر افسوس کہ چار سو سال کے تجربات کے بعد آج بھی ہمارے ارباب حل و عقد سرائیکی صوبہ کے حوالہ سے ملتان کی مرکزیت کو تسلیم کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :