ترقی پزیر ممالک کی معیشت میں زراعت

ہفتہ 18 جولائی 2020

Atta Ullah Nasri Khel

عطاء اللہ نصری خیل

بہت اہم کردار ادا کرتاہے یہ کسی ملک میں خوراک، انکم اور دیہی علاقوں کے لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ کہ زراعت سے منسلک آبادی کل آبادی کا 67 فیصد ہے اور گلوبل اکانومی کا کل  39.4 فیصد حصہ زراعت سے آتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کا جی ڈی پی کا زیادہ تر حصہ زراعت پر منحصر ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتاہے۔


ورلڈ بینک کے 2017 کے سروے کے مطابق پاکستان کی کل زرعی زمین کا رقبہ دو لاکھ تییس ہزار سکوئر ہیں جو دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں زرعی زمین مسلسل گھٹتی جا رہی ہے۔ اور اس کی وجہ پانی کی عدم دستیابی ہے۔
پانی کی عدم دستیابی کیوں ہے یا پاکستان کیوں خشک ہو رہا ہے؟
پاکستان کی معیشت ساٹ فیصد زراعت پر منحصر ہے۔

(جاری ہے)

زراعت کے لئے کافی مقدار میں پانی چاہیے جس کو سٹور کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت ہی کم انتظام یعنی جگہ موجود ہے۔

اس کا اندازاہ (پی سی آر ڈبلیو آر) کے 2017 کے رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔
سال 2017 کے کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کے رپورٹ کے مطابق پاکستان نے 'پانی کی دباؤ لائن' 1990 میں ٹچ کیا اور 2005 میں ' پانی کی قلت لائن' کراس کیا۔ کہا جاتا ہے کہ 2025 میں پاکستان 'مطلق قلت لائن' کراس کرے گا
اگر پانی کی دستیابی اور سٹوریج پر بات کی جائے تو کل 175 بلین ایم مکعب دستیاب پانی میں سے ستر فیصد پانی آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ باقی پینتیس بلین ایم مکعب پانی سمندر میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے۔

ہمارا ملک سالانہ دستیاب پانی کا دس فیصد سٹور کر سکتا ہے جو صرف تیس دن تک کافی ہے جبکہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت اگلے 170 دن تک پانی سٹور کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس صرف تیس دن کے لئے پانی ذخیرہ کرنے کا انتظام موجود ہے وجہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں صرف 164 ڈیمز ہیں جبکہ بھارت میں تقریباً یہ تعداد ساڑھے پانچ سو سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان پانی کے لحاظ سے دریائے کابل اور دریائے سندھ پر انحصار کرتا ہے دوسری بڑی بات یہ ہے کہ جتنے بھی چھوٹے دریا دریائے سندھ سے نکلتے ہیں ان پر قبضہ بھارت کا ہے کیونکہ بھارت کی پوزیشن اوپر کی طرف ہے اس طرح پاکستان کا پانی کی ڈوریں بھارت کے ہاتھوں میں ہیں۔


اگر چہ پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی موجود ہے اس کے باوجود بھارت کئ دفعہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ بھارت نے کئ بار پانی کی بہاؤ کو روکنے یا بڑھانے کی کوشش کی ہے جس سے پاکستان کو کافی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ اگر ہمارے پاس پانی سٹور کرنے کی جگہ ہے تو کوئی مسلہ نہیں کہ بھارت پانی کی بہاؤ روکتا ہے یا کم کرتا ہے۔

دوسری بڑی بات کہ جو بھارت نے کشمیر کی قانونی حیثیت ختم کرکے ملک میں ضم کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ پاکستان کا پانی کو روکا جائے تاکہ پاکستان کو بنجر کیا جا سکے۔ انڈس واٹر ٹریٹی کے مطابق بھارت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ دریائے جہلم اور چناب پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنا کر مستفید ہو سکتا ہے اگر وہ پانی کی سپلائی روک یا کم نہیں کرتا۔

لیکن ظاہری بات ہے کہ وہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنالے تو پانی کی سپلائی پر ضرور اثر پڑ سکتا ہے اور نتیجتاً پانی کی سپلائی کم ہو جائے گی۔
شہتوت ڈیم منصوبہ:
یہ تین سو ملین ڈالر کا منصوبہ ہے جو بھارت نے افغانستان میں ڈیم بنانے کے لئے امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے صرف یہ ہی نہیں بلکہ دوسرے چھوٹے پراجکٹس ہیں جو بھارت دریائے کابل پر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔

بھارت کا اس کے پیچھے دو مقاصد ہیں: 1) افغانستان میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا اور 2) چونکہ یہ دریا کوہ ہندوکش سے نکل کر کابل سے ہو کر خیبرپختونخوا میں داخل ہوتا ہے اور اسی طرح خیبرپختونخوا کی زرعی زمین کو پانی کی سپلائی اس دریا سے پوری کیا جاتا ہے بھارت یہ سپلائی روک کر خیبرپختونخوا کو بنجر کرنا چاہتا ہے۔ یہ ڈیم 140 ملین کیوبک میٹر پینے کا پانی 20 لاکھ لوگوں کو فراہم کرے گا اور ساتھ ہی 4000 ایکڑ زمین کو آبپاشی کے لئے بھی پانی فراہم کرے گا۔

اب ظاہری بات ہے کہ اس سے پانی کا بہاؤ کافی حد تک کم ہو جائے گا جو پاکستان کی زراعت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان میں پانی کی مقدار میں 16 سے 17 فیصد تک کمی کر سکتا ہے۔
تجاویز:
1)    پاکستان کو افغانستان میں انویسٹمنٹ کرنی چاہیے جس طرح بھارت افغانستان اور بھوٹان دونوں میں کررہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کا 13 ڈیمز بنانے کا منصوبہ ہے جو زیر تعمیر ہیں۔


2)    ابھی تک چونکہ پاکستان میں پانی کی فول فلیج منسٹری نہیں ہے سب سے پہلے اس منسٹری کو اسٹیبلش کرنی چاہیے اور نیشنل کمیشنز بنانی چاہیے۔
3)    اٹھارویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 157 میں یہ اختیار صوبوں کو دیا گیا ہے کہ وفاق جو بھی ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کسی صوبے میں بنانا چاہتا ہے تو اس صوبے کی اجازت دینا لازمی قرار دیا گیا ہے یہ اختیار دوبارا وفاق کو دینا چاہیے.
4)    زراعت کا شعبہ واپس وفاق کو دینا چاہیے جو اٹھارویں آئینی ترمیم کے مطابق صوبوں کا حق ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :