پاکستانی سیاست اور غداری کے سرٹیفکیٹس‎

پیر 12 اکتوبر 2020

Atta Ullah Nasri Khel

عطاء اللہ نصری خیل

پاکستانی سیاست میں اسلام، غداری اور کفر کے فتووں کا اہم کردار رہا ہے جہاں اور جب بھی اس کی ضرورت پیش آئی ہے تو حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ نے دل کھول کر سیاست دانوں اور حکمرانوں کو تھما دئیے ہیں۔ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی حزب اختلاف جماعتوں یا دوسرے سیاسی و سماجی قائدین نے مفاہمتی سیاست سے کنارہ کشی کر کے (مجبوراً) مزاحمتی سیاست کا راستہ چن لیا ہو تو مقتدر قوتوں اور حکمران جماعت( بشمول پس پردہ طاقتور ترین قوتیں) نے غداری، حب الوطنی اور کفر کے کارڈ کا استعمال زبردست طریقے سے کیا ہے۔

طاقت کی مثال نشے کی ہے ایک بار جب کوئی جماعت اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہو جاتی ہے یعنی اقتدار میں آ جاتی ہے تو چاہتی ہے کہ وہ قابض ہی رہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ
"Once in power stay in power"
جب اس کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے غداری کے سرٹیفکیٹس اور حب الوطنی کے تمغے بانٹنا شروع کر دیتی ہے۔

(جاری ہے)


تاریخ کے اوراق پر اگر نظر دوڑائیں تو جن لوگوں نے پاکستان کی استحکام کی بات کی ہے، پاکستان کے اتحاد کی بات کی ہے، عدلیہ کی آزادی کی بات کی ہے، آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کی ہے، اداروں کو اپنے حدود کے اندر کام کرنے کی درخواست کی ہو یعنیseparation of power کی بات کی ہے، صوبائی خودمختاری کی بات کی ہے، ووٹ کو عزت دو کی بات کی ہے، فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی ہے، میڈیا کی آزادی اور آزادیء رائے کی تائید کی ہے، انسانی حقوق کی تحفظ کی بات کی ہے تو اس کو غداری کے لقب سے نوازا گیا ہے۔

پاکستان مخالف، ملک دشمن عنصر، بھارتی ایجنٹ اور مودی کا یار جیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔
پچھلے دنوں وسعت اللہ خان نے اپنے ایک کالم میں بڑی خوبصورت بات لکھی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نہ تو کسی کی مستقل حریف ہوتی ہے اور نہ مستقبل حلیف۔ اس سے اتفاق کرنا بجا ہوگا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا کام کام کروانا/نکلوانا ہوتا ہے۔ آج اگر وہ آپ کو اقتدار میں لا کر اپنا کام نکلواتی ہے تو کل یہ عمل بر عکس بھی ہوسکتا ہے تب آپ غدار قرار دئیے جاؤ گے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ صرف اسٹیبلشمنٹ ہی یہ کام کرتی ہے یا کرواتی ہے بلکل کوئی بھی حکمران جماعت بلکہ یو کہیں کہ ہماری سیاست کا یہ وطیرہ رہا ہے۔ ہر وہ لیڈر یا حکمران جس نے عوامی شہرت اور مقبولیت حاصل کی، جمہوریت کو مضبوط بنانے کی کوشش کی اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا تو غداری اس کے حصّے میں آئی۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وہ تمام لوگ جو پاکستان کی تاریخ میں غدار قرار دئیے گئے ہیں اصل میں وہ جمہوری اور محب وطن پاکستانی ہوتے ہیں۔

آپ مثال لیجیے کہ حسین شہید سہروردی جو ایک بنگالی لیڈر تھا اس کی قربانیوں کو کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔ تحریک پاکستان کے وقت اور قیام پاکستان کے بعد اس کی قربانیوں کی ایک لمبی داستان ہے۔ پاکستان کے دونوں دھڑوں یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو یکجا رکھنا ان ہی کی مرہون منت تھا حکومت وقت نے غدار قرار دیا۔ اس کے بعد ساٹھ کی دہائی میں جب الیکشن کا زمانہ تھا تو سیاسی مخالفت اور پاکستان کو توڑنے کی جھوٹی سازش میں جرنیلی حکومت کی طرف سے بابائے قوم کی بہن فاطمہ جناح کو بھی غداری کا تمغہ ملا۔

ایسا ہی کچھ خان عبدالوالی خان کے ساتھ بھی ہوا۔ غداری کا یہ سلسلہ کبھی روکا نہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کو جب سیاست کے میدان سے باہر کر دیا گیا اور جمہوری فیصلوں میں مشرقی پاکستان کے لوگوں کا خیال نہیں رکھا گیا تو آخر کار وہ مزاحمتی سیاست پر اتر آئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو غدار قرار دیا گیا اور آخر کار مشرقی پاکستان بنگلادیش کی صورت میں آزاد ہوا۔

اس کے زمہ دار ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان دونوں تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے باپ تھے کو نام نہاد علماء نے کافر قرار دیا اور بعد میں شاہی محل والوں نے پھانسی بھی دے دی۔ ذوالفقار علی بھٹو اگر ایٹمی پروگرام کے باپ تھے تو اس کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو میزائل پروگرام کی ماں تھی۔ محترمہ کے دور اقتدار میں ٹیکس ریونیو دوگنا جبکہ ملکی معاشی استحکام میں تین گنا اضافہ ہوا اور پاکستان دس بڑی تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا، اس کو بھی مبارک القابات سے نوازا۔

نواز شریف جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا۔ اگر عوامی لیڈروں کی بات کی جائے تو شیخ مجیب کی طرح جب اکبر بگٹی نے مزاحمتی سیاست کا راستہ اختیار کیا اور اپنے صوبے کے وسائل پر بلوچوں کے حق کی بات کی تو غدار قرار دیا گیا، صرف غدار ہی نہیں بلکہ بڑی بے رحمی سے شہید بھی کر دیا گیا۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والا بابا جان اور اس کے ساتھی آج بھی جیل کے سلاحوں کے پیچھے پڑے ہیں کیونکہ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے۔


حالیہ دنوں میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا اعلان ہوتے ہی غداری کے سرٹیفکیٹس بانٹنے لگے اور مقتدر جماعت تحریک انصاف کے اہم رکن نے مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف، سمیت چالیس لوگوں کے خلاف غداری کی ایف آئی آر درج کروائی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اب مسلم لیگ اور اپوزیشن جماعتوں نے مل کر حکومت کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسرا راستہ چونکہ بچا نہیں اس لئے پہلے شہباز شریف کو جھوٹے کیسز میں گرفتار کرلیا گیا تاکہ اپوزیشن کو کمزور کر سکے، اس سے مقصد پورا نہیں ہوا تو میاں نواز شریف کے بیان کو نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور بعد میں غداری کا ٹپہ لگا کر بھارتی ایجنٹ بھی قرار دیا۔صرف یہ نہیں آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کے خلاف بھی ایف آئی آر کاٹی گئی ہے۔

اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو فاروق حیدر کے خلاف ایف آئی آر درج کروانا بھارتی عزائم کو تقویت بخشنے کا مترادف ہے، وہ وزیراعظم جو لوگوں نے منتخب کیا ہے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروانا باعث ندامت ہے۔
ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے آج اگر آپ کسی کو غدار قرار دیتے ہوں تو کل کوئی اور آپ کی جگہ لے کر آپ ہی کو غدار قرار دے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :