بنتِ حوا کی فریاد !!!

جمعرات 17 ستمبر 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

علم عمرانیات کےبقول  انسان ایک معاشرتی حیوان ہے , وہ تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ اسے زندگی گزارنے کےلیے دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہناپڑتاہے اوراس طرح معاشرہ وجود میں آتاہے۔ ہر معاشرے پر مذہب , اخلاقیات  اور ریاستی قواعد وضوابط  کے تہذیبی ووتمدنی اثرات نمایاں طورپر دیکھےجاسکتےہیں - یہ ہی معاشرے میں اچھائی اور برائی کے پیمانے سمجھے جاتےہیں۔

جب مذہبی اور اخلاقی اقدار اور قانون کی گرفت کمزور پڑنےلگیں تو معاشرے کا زوال شروع ہوجاتاہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کی عکاسی پاکستانی معاشرہ کرتاہے۔ ہمارا معاشرہ مذہبی اور اخلاقی اقدار کھوچکاہے ۔ اور ریاستی قانون کی حکمرانی ماند پڑچکی ہے , جسے سیاسیات کی اصطلاح میں  "گڈگورننس " کا نہ ہونا سمجھاجائےگا۔

(جاری ہے)

کیونکہ ہمارا نظام مکمل طورپرناکام ہوچکاہےاورقانون کی حکمرانی ختم ہوچکی ہے اور قانون نافذ کرنےوالےادارے اور نظام عدل ناکام ہوچکےہیں ۔

نظام حکومت میں خرابیوں اور معاشی مسائل نے عوام الناس کی اخلاقی اور مذہبی حالت پرلامحالہ اور غیرمحسوس اثرات مرتب کیے ہیں ۔ بظاہر میری بات بڑی عجیب لگےگی مگر  یہ سچ کہ بدعنوان اشرافیہ , رشوت خور افسر شاہی نے جرائم کی سرکوبی نہیں کی ۔ فرسودہ قانونی  ڈھانچے , روایتی تھانہ کلچراور نظام عدل نے جرائم پیشہ عناصر کو سزاوں سے بچ نکلنے کا موقع دےکر مجرمانہ رحجان کی حوصلہ افزائی کی ۔

گویا ہمارا نظام     انصاف کی فراہمی میں مکمل طورپر ناکام رہا اور جرائم پیشہ عناصر کے بےلگام ہوجانےکےسبب سزا وجزا کا خوف ختم ہوگیا۔ اور یہ ہی بنیادی وجہ ہےکہ ہمارا معاشرہ بکھر کر ایک " بےقابو ہجوم " بن  گیا ۔ اور یہیں سے اخلاقی زوال اور مذہب سےدوری پیدا ہوئی حتیٰ کہ خوفِ خدا سے عاری درندہ صفت بھیڑیے اس " ہجوم بےمہار " میں سرایت کرتے چلےگئے اور پھیلتے چلےگئے۔

اور یہ وہ درندہ صفت بھیڑیے ہیں جن  کےہاتھ سے کسی کی جان ومال اورعزت وآبرو محفوظ  نہیں رہی ۔ ذہنی طورپر بیمار یہ بپھرا ہجوم ایسے بھیڑوں کی آماجگاہ بن گیا , جو بنت حوا کی آبرو سرعام چوراہوں پر پامال کرنےلگے- چنانچہ جب تک ان بھیڑیوں کوسرعام نشان عبرت نہیں بنایا جائےگا , تب تک  ان سے نجات ممکن نہیں ہے ۔ بلاشبہ زیادتی کےمجرموں کی سرعام پھانسی کےلیے مئوثر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔

مگر اس کےلیے صرف اتناہی کافی نہیں ہے , چنانچہ تھانہ کلچر , قانونی ڈھانچےاورنظام عدل میں جامع اصلاحات بھی حالات کا تقاضا ہیں تاکہ فرسودہ نظام کی بساط لپیٹی جاسکے۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال کرنے والے سزا سے بچ جاتے ہیں ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دیسی لبرلز کو سرعام پھانسی کے مطالبے پر ان درندوں کے انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں ۔

کتنے دکھ کی بات ہے کہ شریعی سزاؤں کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں سنی ان سنی کردی جاتی ہے۔ یہ کتنی کرب و اذیت کی بات ہے کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جس سڑک پر بنتِ حوا کے ساتھ ہوئی , وہ سڑک فلاں نے بنوائی تھی ۔ یہ کتنی حیران و پریشان کردینے والی بات ہے کہ پولیس افسران بجائے اپنا فرض ادا کرنے کے یہ طے کرتے پھر رہے ہیں کہ عورت کو کتنے بجے کے بعد گھر سے نہیں نکلنا چاہیے ۔

یہ کس قدر دوغلاپن ہے کہ ایک جانب ہم ترک اداکارہ اسریٰ بیلجیک کو اسلامی طرزحیات  سکھانا چاہ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم عورت کو وہ مقام نہیں دیتے جو ازروئے اسلام خواتین کاحق ہے ۔ مردوں کےاس معاشرے میں صنف نازک ہہرجگہ غیرمحفوظ ہے ۔ گویا"دوسروں کو نصیحت کی اور خود میاں فصیحت "
ہمارے معاشرے کو " تربیت " کی ضرورت ہے۔  چنانچہ " افراد کی تعلیم و تربیت پر توجہ مرکوز کیجئے ۔

جرائم کی شرح کم کرنے کےلیے منشیات اور بے روزگاری سے نمٹیے تاکہ آوارہ گرد اور عادی مجرموں کی مزید نئی کھیپ تیار نہ ہو ۔ لوگوں کو مشغول کیجئے تاکہ فراغت میں ذہن نہ بھٹک پائیں ۔ اس کےلیے " کتاب کلچر " کو فروغ دینا ہوگا۔ فحاشی و عریانی کا خاتمہ کیجئے اور فحش ویب سائٹس کو بند کیجئے ۔ تاکہ ناپختہ اذہان  بھٹک نہ پائیں ۔ حکومت , علماء , مخیرحضرات, والدین  , ماہرین , اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو اس ضمن میں بھرپور کردار اداکرنے کی ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :