سائنس اور اسلام کا دورِعروج ۔ قسط نمبر 1

جمعہ 11 دسمبر 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

عصرِ حاضر میں سائنسی علوم نکتۂ کمال کو پہنچ چکے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو مذہبی تعلیمات کو سائنسی استدلال کے ساتھ ثابت کرکے مذہب کی عقلی بنیادوں پر تشریح کا رحجان فروغ پارہا ہے ۔ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے ,لہذٰا اسلامی تعلیمات ہر زمانے کی طرح  دورِ جدید میں بھی مکمل طورپر قابلِ فہم اور قابلِ عمل ہیں ۔ دراصل  اسلام کی آفاقی تعلیمات بذاتِ خود سائنس کی ترقی و ترویج کی بنیاد ہیں ۔

مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں سائنسی علوم کو مفروضوں سے نکال کر  قابلِ عمل راہ پر ڈال دیا ، تاکہ سائنس بنی نوع انسان کے فائدے اور آسانی کا ذریعہ بن سکے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو یہ باور کروایا جائے کہ سائنسی علوم صرف اقوام مغرب کی مرہونِ منت نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ہی کھوئی ہوئی میراث ہے۔

(جاری ہے)

  ماضی کے مایۂ ناز مسلمان سائنسدانوں کےکارناموں  کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کےلیے سائنس کے طلباء کو ان عظیم ہستیوں پر تحقیق ضرور کرنی چاہیے ، تاکہ مسلمانوں میں اپنی ایک گمشدہ میراث کو واپس پانے کی امنگ پیدا ہوسکے۔

  علمِ سائنس  کے تناظر میں اگر اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہےکہ سائنس  میں " تحقیق  اور تجربے " کی روح اسلامی تعلیمات کی مرہون منت داخل ہوئی ۔ قرآن مجید میں بار بار ہمیں علم کی فضیلت بتائی گئی ہےاور غوروفکر کی تلقین کی گئ ہے۔ قرآن کریم میں واضح طورپر یہ فرمایا گیا کہ "قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقُ (عنکبوت:۲۰)”آپ ان لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو کس طرح ابتداء سے خلق کیا“قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (یونس:۱۰۱)آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو اور دیکھو کیا کیا چیزیں ہیں آسمانوں اور زمینوں میں“فَلْیَنْظُرِ الاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (طارق:۵)دیکھنا چاہیے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے“
اپنے دورِ عروج میں مسلم سائنسدانوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔

یہ وہ دور تھا جب مغرب جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا تھا۔   چنانچہ سلسلہ وار ان تمام عظیم مسلم سائنسدانوں کا تذکرہ پیش خدمت  ہے , جن کے سنہری کارناموں کو بھلایا جا چکا ہے۔
سب سے پہلےتذکرہ علم طب کے عظیم نام اور طریقہ جراحت یعنی سرجری کے بانی "  ابو القاسم الزہراوی(۱۰۱۳۔ ۹۳۶ء)کا جو یورپ میں (Abulcasis /Albucasis) کے ناموں سے مشہور ہیں ۔ الزہراوی نے" التعریف عن عجزعن التالیف" کے نام سے ایک کتاب لکھی جو طب کی تاریخ کا زریں کارنامہ ہے , یہ کتاب تیس مقالات پرمشتمل ہے,  جوکہ ایک شہرۂ آفاق تصنیف ہے ۔

  ابوالقاسم الزہراوی دنیاکےپہلے سرجن تھے, جنہوں نے دنیا کا سب سے پہلا آپریشن کیا تھا۔  انہوں نے ایک آنکھ والے آدمی کے موتیا بند کا نازک آپریشن کیا تھا ۔ الزہراوی نے علاج بالکی یعنی زخموں کو جلانے یا داغنے ، مثانہ کی پتھری  کو پسینے آور آپریشن کے ذریعے اسے نکالنے ،آنکھوں آور دانتوں کی سرجری قطع اعضاء آور پٹی باندھنے کے عملی طریقے بیان کیے ،نیز انہوں نے ٹوٹی ہوئی ہڈی جوڑنے اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کو آپریشن سے الگ کرنےکےطریقے کی وضاحت کی۔

انہوں نے کٹی ہوئی شریانوں کا خون بند کرنےکے لئے انھیں باندھنے اور ہڈیوں کو جوڑنے کے بعد ان پر پلاستر چڑهانے کے طریقے بتائے, زخم کو ٹانکے کے لئے موزوں دھاگوں اور ٹانکوں کا استعمال کرنا بھی انہی کی اختراع ہے۔ مزید برآں آپریشن سے پہلے مریض کو مسکن دوائی جسکو انگریزی و سائنسی زبان میں Inesthesia کہا جاتا ہے وہ انہی کی ایجاد ہے ۔
اس کے علاوہ وہ 200 سے زائد آلاتِ جراحی کے بھی موجد ہیں ۔

انہوں نے کان کی اندرونی ساخت کا معائنہ کرنے کا آلہ، پیشاب کی نلی کا اندرونی معائنہ کرنے کا آلہ (اسی کی جدید شکل انڈوسکوپی (Endoscopy) ہے، حلق سے بیرونی اشیاء کو نکالنے کا آلہ جیسے پیچیدہ آلے بنائے۔
 اس نے سرطان پر بھی تحقیق کی اور بتایا کہ سرطان کے پھوڑے کو چھیڑنا نہیں چاہیے۔ وہ دانت کے امراض کے ماہر تھے اور نقلی دانت بنانے اور ان کو لگانے کا فن جانتےتھے  ۔

الزہروی نے سر کے مختلف اقسام کے فریکچر کو بیان کیا اور سر کی ہڈی (Skull) کے کامیاب آپریشن بھی کیے۔جب مسلم دور میں (اسپین اور عراق وغیرہ میں) جراحی ایک باعزت پیش تھا اور جراح کی مسلم سماج میں قدر اور عظمت تھی ، اسی دور میں یورپ میں جراحی ایک کمتر درجہ کا حقیر پیشہ تھااور کوئی بھی باعزت ڈاکٹر اس پیشے کو نہیں اپناتا تھا۔ جراحی صرف قصائی اور حجام کیا کرتے تھے۔

۱۱۶۳ء میں کائونسل آف ٹورس (Council of Tours) نے ایک تجویز کا اعلان کیا کہ جراحی کو تمام مکاتب ادویہ سے خارج کر دینا چاہیے اور کسی بھی محترم طبیب کو اس پیشے (جراحی) کو نہیں اپنانا چاہیے۔ یہ اہلِ مغرب کے ماضی کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے , جو آج علومِ طب اور فن جراحی میں دنیا بھر کے امام بن چکے ہیں ، اورمسلم دنیا مغربی مفکرین کی علمی کاوشوں کی عادی اورلاشعوری  طورپر محتاج بن چکی ہے۔  (جاری ہے )۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :