سراپا گُفتار

جمعہ 6 مارچ 2020

Bint E Mehar

بنت مہر

بحیثیت پاکستانی قوم ہم لوگ بے شمار خوبیوں سے مالا مال ہیں جنہیں شمار کرنے بیٹھیں تو دن رات کی تفریق بھول کر اسی کام پہ لگے رہیں لیکن اگر ان سب خوبیوں میں سے سرفہرست خوبی کو دیکھا جائے تو وہ ہے مہمان نوازی۔پاکستانی قوم اپنے ملک میں آنے والے مہمان کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے چاہے مہمان بھارت سے ہی کیوں نہ ہو پاکستان میں انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا جاتا ہے۔


 پاکستان کی تہذیب و روایات میں مہمان نوازی کو اللہ پاک کا انعام سمجھا جاتا ہے ہم پاکستانیوں کومہمان نوازی میں آج تک کوئی ہرا نہیں سکا پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں توپاکستانی قوم نے اپنے ملک میں آنے والے ہر مہمان کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا خواہ وہ ہندوستان سے آنے والے ستر لاکھ مسلمان ہوں یا افغانستا ن سے آنے والے چالیس لاکھ مہاجر پاکستانیوں سے سب کو کھلے دل سے گلے لگایا اور اپنے ملک میں بسایا بیرون ممالک سے آنے والے لوگ چاہے وہ کھلاڑی ہوں یا سیاستدان، فنکار ہوں یا بیوپار سب کے سب پاکستانیوں کی اس خوبی کے دل و جان سے قائل ہیں بلکہ کچھ غیر ملکیوں نے تو پاکستانی قوم کو دنیا کی سب سے مہمان نواز قوم کے اعزاز سے بھی نوازا ہے اور ہم بھی اس عزت افزائی پر ایسا خوش ہوئے کہ اپنی اس خوبی کو مزید پالش کر لیا۔

(جاری ہے)

 اب صورت حال یہ ہے کہ ہم صرف انسانوں کی ہی نہیں بلکہ آنے والی ہر نئی چیز کا خوب جم کر استقبال کرتے ہیں پھر چاہے وہ کوئی تہوار ہو، کوئی وبا ہو،قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ہو یا کوئی آفت ہو سب کا استقبال بھرپور انداز میں کیا جاتا ہے ہم رمضان کریم کی آمد سے قبل ہی اس ماہ مبارک کے استقبال کے لیے اشیا ء خوردونوش سے لے کر ملبوسات تک ہر چیز کے نرخ بڑھا دیتے ہیں رمضان سے پہلے ہی اشیاء خورو نوش کی ذخیرہ اندوزی کے ساتھ لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا جاتا ہے۔

 منافع خور مختلف قسم کی اشیاء کی قیمتوں میں تین گناسے زائد کا اضافہ کر کے رحمتوں کے مہینے کا استقبال کرتے ہیں پٹرول مہنگا ہو جائے تو پٹرول پمپ بند کر کے پٹرول کی ذخیرہ اندوزی کر کے مہنگائی کو پورے اہتمام کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اب اس کی تازہ ترین مثال کرونا وائرس ہے جسکی آمد کا سنتے ہی ہم لوگوں نے اس کے استقبال کے لیے ماسک ذخیرہ کرنا شروع کر دیے دوسرے ممالک میں اس بیماری سے تدارک کی تدبیریں کی جاتی ہیں اس کے علاج کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں لیکن روئے زمین پہ ایسی جی دار قوم بھی ہے جو ایک وبا کو خوش آمدید کہنے کے لیے بے چین ہے چین میں کرونا وائرس پھیلا تو وہاں کے لوگوں نے دن رات کی تمیز بھلا کر مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے انسانیت کی اعلی مثال قائم کر دی چند دنوں میں ہسپتال تعمیر کر کے دنیا کو بتا دیا کہ باضمیر قومیں ایسے خود پہ پڑنی والی مشکلات کا مل کر جواں مردی سے سامنا کرتی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں اگر ہم خود کو دیکھیں تو ہم نے اپنے ہی لوگوں کو لوٹنے کا پوراپورا انتظام کیا ہوا ہے۔

۔
ایک بُزرگ جو عراق کے شہر واسط میں رہتے تھے انہوں نے گندم سے بھری ایک کشتی بصرہ شہر کی طرف بھیجی اور اپنے وکیل کو لکھا:جس دن یہ کھانا بصرہ پہنچے اُسی دن اسے بیچ دینا، اگلے دن تک تاخیر نہ کرنا۔چونکہ وہاں گندم کی قمیت بڑھنے کے امکانات تھے تو تاجروں نے وکیل کو مشورہ دیا کہ اگر اسے جمعہ کے دن تک رکھ لو تو دُ گنا نفع ہو گا۔چنانچہ اس وکیل نے جمعہ تک وہ گندم فروخت نہ کی جس کی وجہ سے اسے کئی گُنا فائدہ ہوگیا۔

جب وکیل نے خوشی خوشی یہ واقعہ اپنے مالک کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نے اسے جواب لکھا: اے شخص!ہم اپنے دین کی سلامتی کے ساتھ تھوڑے نفع پر ہی قناعت کر لیا کرتے ہیں مگرتم نے اس کے برخِلاف کِیا۔ ہمیں یہ پسند نہیں کہ اس میں کئی گنا نفع ہو، اور اس کے بدلے ہمیں دینی و اُخروی نُقصان پہنچے۔ لہٰذا جیسے ہی تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو فوراً وہ تمام مال بصرہ کے فقرا پر صدقہ کر دینا۔

شاید ایسا کرنے سے میں ذخیرہ اندوزی کے گُناہ سے برابر برابر نَجات پا سکوں 
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں گے صنم پتھر کے
ہمارے اسلاف کا طریقہ دیکھیں تو دین کی سلامتی اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے تھوڑے نفع پر گزارا کر لیا کرتے تھے ہمارے بزرگوں کی نظر میں معاشی خوشحالی کا مفہوم ہرگزہرگز یہ نہ تھاکہ مُلک و قوم کو خواہ کتنا ہی خسارہ ہوجائے ، مُسلمان بھائی کتنا ہی مالی بدحالی کا شکار ہوجائے مگر میرے مالی حالات بہتر ہونے چاہئیں، میری ذاتی ملکیت ودولت میں اضافہ ہونا چاہئے۔

جائز و ناجائز کسی بھی طریقے سے دوسرے مُسلمانوں کو کنگال کرکے ان کے مال کو اپنی جائداد کا سنگِ بنیاد قرار دینا ان کے دل نے کبھی گوارا نہ کیاکیونکہ وہ آج کے بعض تاجروں کی طرح ”پیسہ ہو چاہے جیسا ہو “ کے قائل نہ تھے بلکہ وہ تو اپنے مُسلمانوں کے حقیقی خیر خواہ ہوا کرتے تھے اور ان کے نُقصان کو اپنا نُقصان سمجھا کرتے تھے جبکہ ہم لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے منافع کو بڑھانے لیے دوسروں کو جتنا بھی نقصان اور تکلیف پہنا سکتے ہیں پہنچائیں اپنے فائدے کے آگے ہمیں کسی کے نقصان اور پریشانی کی رتی برابر پرواہ نہیں ہوتی بلکہ اپنے فائدے کے لیے دوسروں کو تکلیف دینے کے لیے کوئی بھی طریقہ اپنانا پڑے ہم ہر حد سے گزر جاتے ہیں 
خود کشی شیوہ تمہارا وہ غیور و خوددار
تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گُفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گُلستاں بہ کنار
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت اُن کی
 نقش ہے صفحء ہستی پہ صداقت اُن کی
 ہم وہ قوم ہیں جو پہلے سے تڑپتے اپنے بہن بھائیوں کو اپنی کوششوں سے مزید تڑپانے کا ایسا اہتمام کرتے ہیں کہ انسانیت شرما جاتی ہے ہم گفتار سراپا تو ہیں لیکن سراپاکردارمیں شیطان کو بھی ورطہ ء حیرت میں ڈال دیں ہم حکمران تو حضرت عمر فاروق اعظم و عمر بن عبدالعزیز جیسے چاہتے ہیں لیکن کردار میں ہم غیرمسلموں کو بھی پچھاڑ ڈالتے ہیں بات ریاست مدینہ کی کرتی ہیں مگر مدینے والے کی کوئی بات نہیں مانتے ہم نے غلطی پر ڈٹے رہنے اور ضمیر کو سلانے کا ایسا معاہدہ کیا ہوا ہے جسے کوئی آفت کوئی بلا توڑ نہیں سکتی افسوس صد افسوس ہم بدلنا تو چاہتے ہیں مگر دوسروں کو۔

نیک دیکھنا چاہتے ہیں مگر حکمرانوں کو ۔انصاف کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اپنی ذات سے کسی کو انصاف نہیں دینا چاہتے ۔ہم مسلمان تو بڑے فخر سے کہلواتے ہیں لیکن اسلام نام کی کوئی چیز ہمارے کردار میں نہیں پائی جاتی۔
پاکستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والا ملک ہے لیکن میں یقین سے کہہ سکتی ہوں اگر کوئی دھوکہ دہی کا کوئی سروے کیا جائے تو یقینا پاکستان اس میں بھی سب پہ بازی لے جائے گا لوٹنا تو ہمارا قومی فریضہ بن چکا ہے جس کا جتنا بس چلتاہے وہ اس حد تک دوسروں کو لوٹتا ہے ویسے تو ہم بدعنوانی کے خلاف بہت بلند و باند نعرے لگاتے ہیں لیکن ان نعروں کو ہم دوسروں کی بد عنوانی کرنے کے تناظر میں لیتے ہیں خود کریں تو کوشش ہوتی ہے کسی کو اس کی خبر نہ ہو کوئی شکایت نہ کر دے تاکہ جب تک ہو سکے ہم بھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھو سکیں پچھلے ماہ جب آٹے کا بحران پیدا ہوا تو بحیثیت قوم ہمارا انداز کیا تھا؟ ہم نے اس بحران کو ختم کرنے میں کتنا کردار ادا کیا یہ سوال کرنا تو ٹھیک نہیں ہو گا اس لیے سوال یہ بنتا ہے کہ ہم نے اس بحران کو بڑھانے میں کتنا حصہ ڈالا تو جواب سو فیصد ہو گا ہم میں سے انفرادی طور پہ ہر کسی نے اپنے فائدے کے لیے اس بحران کو بڑھاوا دینے کی کوشش ہی کی مل مالکان سے لے کر دُکان دار اور تندور والوں تک سب نے اس کارخیر میں بھرپور طریقے سے حصہ ڈالتے ہوئے حکومت کو برا بھلا کہہ کراصل قیمت سے پانچ گنا وصول کر کے مہنگائی سے نڈھال غریب عوام کو مزید ادھ موا کر دیاحضرت امامہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم ﷺنے فرمایا:جو شخص چالیس دن تک غلہ مہنگائی کے لحاظ سے ذخیرہ کرے پھر غلطی کا احساس ہونے پر وہ تمام غلہ صدقہ کر دے پھر بھی اس کی غلطی کا کفارہ ادا نہیں ہوتا۔

 اب رمضان کریم کی آمد آمد ہے اور کاروباری حضرات کی عید ہونے والی ہے دوسرے مسلمان و غیر مسلم ممالک میں ماہ رمضان کا انتظار نیکیاں بڑھانے لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے لیکن ہم پاکستانی مسلمانوں کی فطرت بن چکی ہیں کہ ہم سارا سال ماہ رمضان کا انتظار اس نیت سے کررہے ہوتے ہیں کہ کب یہ ماہ آئے گا اور ہم لوگوں کو لوٹناشروع کریں گے تمام ممالک خواہ وہ مسلمان ملک ہوں غیر مسلم ممالک میں رمضان کے کے موقع پر خوردو نوش کی اشیاء کی قیمتوں میں جہاں کمی کا اعلان کرتے ہیں تو وہاں اشیاء بھی وافر مقدار میں دستیاب کرتے ہیں لیکن ہمارے یہاں جیسے ہی ماہ رمضان قریب آتا ہے تو اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں اور پھر رمضان میں منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں حضرت عمر فاروق سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺنے فرمایا: جو شخص کھانے پینے کی چیزوں میں ذخیرہ اندوزی کرکے مسلمانوں پر مہنگائی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ کے مرض میں مبتلاء فرما دیتا ہے (رواہ ابن ماجہ) 
بحیثیت مسلمان ہمیں ذخیرہ اندوزی اوربے جا مہنگائی سے بچنا چاہیے کیونکہ ہمارے دین نے ہمیں یہی طریقہ سکھایا ہے کہ دوسرے کے فائدے کے لیے اپنے فائدے سے سبکدوش ہو جاؤایسی ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی جس سے معاشرہ کے افراد تکلیف میں آجاتے ہیں اس سے فائدہ حاصل کر کے کسی مسلمان کو تکلیف میں مبتلا کریں گے تو اللہ کی ناراضگی مول لیں گے اور یوں یہ فائدے کی بجائے الٹاگھاٹے کا سودا ہو گا اور یقینا ہم میں سے کوئی بھی اپنے لیے ایسا گھاٹا نہیں چاہتا لہذا اپنی کوشش سے معاشرے کو درست سمت میں گامزن کرنے میں کردار ادا کریں موجودہ انتظامیہ کو ایسا نظام متعارف کرانا ہو گا جس نظام تک غریب کی دسترس آسانی سے ہو اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف فوری کاروائی کو عمل میں لایا جائے۔

بظاہر تو یہ ناممکن ہے لیکن ناممکن کو ممکن بنانا ہو گاایک طرف تو حکومت کو مہنگائی روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے اوردوسری طرف ہر شہری کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے معاشرے انفرادی کوشش سے ہی بہتری کی جانب گامزن ہوتے ہیں آپ اپنے حصے کی شمع روشن کریں گے تو آپ کی روشنی سے کوئی اور بھی اپنے حصے کا دیا روشن کر لے گا اور یوں دیے سے دیا جلتا رہے گا ان شاء اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :