کس سے شکوہ کرے کوئی...

جمعرات 17 ستمبر 2020

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ہم من خیث القوم اخلاقی گراوٹ کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں. بعض موضوعات پر لکھتے وقت آپ کی سوچوں کا ایک بھنور تو دماغ میں پیدا ہوتا ہی ہے لیکن اکثر اوقات آپکا قلم بھی لکھتے وقت کئی بار مزاحمت کرتا ہے. سانحہ موٹروے جس میں ایک خاتون کی عصمت کو اس کے بچوں کے سامنے تار تار کیا گیا ایک دل دہلا دینے والا واقعہ تھا جس نے پوری قوم کو سوگوار کر دیا.

اسے میری کم مائیگی سمجھئیے یا میری کوتاہ دامنی یا کم ہمتی سمجھئے کہ میں اس موضوع پر اپنے قلم کو جنبش تک نہ دے سکا. میرا آج کا موضوع بحث سانحہ موٹر وے بالکل نہیں ہے کہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا، پڑھا، بولا اور سنا جا چکا.

(جاری ہے)

یہ کوئی واحد سانحہ نہیں ہے بلکہ اس کے پہلے اور اس کے بعد بھی سانحات اور جنسی درندگی کے واقعات کی ایک مکمل سیریل ہے.

ایک نہ تھمنے والا لامتناہی سلسلہ ہے جو نہ صرف اس معاشرے کی جڑوں کھوکھلا کر چکا ہے بلکہ ہمارے سماجی رویوں کے مثبت پہلوؤں کو بھی دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے. زینب کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا نہ ہی سانحہ موٹر وے کوئی آخری واقعہ ہے بلکہ کل کے اخبار میں لاہور سمیت ملک بھر میں کم از کم پانچ سے زائد جنسی درندگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں.

بحیثیت قانون دان میں یہ پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے ایسے واقعات محض اس وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے مبادا مظلوم خاندان کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائے گی. ایسے اندوہناک واقعات کی مکمل روک تھام تو شاید ممکن نہیں ہے لیکن سنجیدہ کوششیں کرکے ان میں خاطرخواہ کمی ضرور لائی جا سکتی ہے. میرا آج کا موضوع بحث ایسے واقعات کے محرکات پر بحث کرنا ہے جو جنسی درندگی کا باعث بنتے ہیں.

ان وجوہات کو زیرِ بحث لانا ہے جو ان واقعات کو جنم دیتی ہیں یا جنم دینے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور انکا تدارک کیسے ممکن ہے. ماہرین تعلیم اس بات پر کلی طور پر متفق ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کا گھر ہوتا ہے جہاں اس کی تربیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے. بچہ اپنے گھر کے ماحول اور والدین کے رویے سے بہت اثر لیتا ہے. ہماری معاشرتی بدقسمتی یہ ہے کہ والدین اپنے بچے کی جنسی تربیت کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے بلکہ اس موضوع پر بات کرنا ہی معیوب سمجھتے ہیں.

ہمارے ہاں بہترین اور مثبت تربیت کا بہت فقدان پایا جاتا ہے جو آگے چل کر بچوں کیلئے دیگر مسائل کیساتھ جنسی بے راہ روی کا بھی باعث بنتا ہے. ہمارے والدین اس موضوع کو اہمیت ہی نہیں دیتے بلکہ باپ بیٹے کا آپس میں ایسے موضوعات پر بات کرنا ہی معیوب سمجھا جاتا ہے. ہر بچے کی زہنی بلوغت کی عمر دوسرے سے مختلف ہوتی ہے. والدین کو یہ بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ اب انکا بیٹا یا بیٹی بلوغت کی دہلیز پار کر رہا ہے.

والدین اپنے بچوں کے درمیان شرم کی حائل دیوار کو ختم کرکے اسے اچھے برے کی تمیز سکھائیں. بچے کی برھتی عمر کیساتھ ساتھ اسکی جنسی تربیت کیجئے. بچے میں فطری طور پر تجسس کا عنصر پایا جاتا ہے. اگر آپ نہیں بتائیں گے تو بچہ دیگر لوگوں سے یہ باتیں سیکھے گا جو بچے کو بربادی کی طرف لے کر جائے گا. بچے کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں بچپن سے ہی روشناس کروائیں.

انھیں اپنے اچھے برے رشتہ داروں کی پہچان کروائیں. اپنے بچوں کیساتھ ایک نرم رویہ رکھئے کہ بچہ آپکے ساتھ کوئی بھی بات شئیر کرنے میں راحت محسوس کرے. بچے کیساتھ جنسی زیادتی کے اکثر واقعات میں قریبی رشتے دار ملوث ہوتے ہیں. اب ایسا ذیادتی کا شکار ہونے والے بچے ڈر کے مارے اپنے والدین کو بتانے سے کتراتے ہیں. اسی احساس کمتری کیساتھ وہ جوان ہوتے ہیں اور پھر اس طرح کے سانحات کا باعث ہیں.

آپ ایسے لوگوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی اکثریت بچپن میں جنسی زیادتی کا شکار رہ چکے ہوتے ہیں اور جب اسی احساس کیساتھ جوان ہوتے ہیں تو گزرتے وقت کیساتھ ان میں جنسی ہوس اس حد تک بڑھ چکی ہوتی ہے کہ یہ معاشرے کیلئے ایک ناسور بن چکے ہوتے ہیں. ایسے لوگ دیگر دوستوں کو بھی اپنا شریک جرم بنا لیتے ہیں.

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جو بچے غربت یا دیگر وجوہات کی بنا پر بچپن میں ہی عملی زندگی میں قدم رکھ لیتے ہیں انھیں سازگار ماحول ہی نہیں ملتا. ان میں سے بہت سے بچوں کو کسی نہ کسی طریقے سے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے. یہ بچے بھی بڑے ہو کر نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اور اپنی خفت کو تسکین دینے کیلئے عصمت دری جیسے واقعات کا باعث بنتے ہیں.

اکثر ایسے لوگوں کیلئے ہم جنس پرستی یا مخالف جنس کوئی معنی نہیں رکھتی. ان کیلئے معنی رکھتی ہے تو صرف جنسی تسکین. لہٰذا اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے بچپن سے ہی اپنے بچے کی جنسی تربیت کیجئے اور انکے ساتھ ہر اس موضوع پر بات کیجئے جن موضوعات پر آپ اپنے والدین سے بات کرنا چاہتے تھے لیکن ہچکچاہٹ اور والدین کی ڈانٹ ڈپٹ آڑے آ گئی. حکومت بچوں کو سکول میں لانے کیلئے یا تو ٹھوس اقدامات کرے یا بچے کو کام والی جگہ پر سازگار ماحول دینے کیلئے عملی اقدامات کرے.

قوانین تو پہلے سے موجود ہیں لیکن ان پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے. اب تعلیم کی طرف آ جاتے ہیں. یہ سوشل میڈیا کا دور ہے. اب جنسی تربیت کیساتھ ساتھ جنسی تعلیم بھی وقت کی اہم ضرورت ہے. جنسی تعلیم تو ہمارے آقا علیہ السلام بھی اپنے صحابہ کو دیا کرتے تھے، امہات المؤمنین بھی مسلمان خواتین کو دیا کرتی تھیں تو پھر ہم خود کو مسلمان کہلواتے ہوئے جنسی تعلیم دینے سے کیوں کتراتے ہیں.

بچوں کے بستر الگ کرنے، بلوغت، شادی کی عمر، مباشرت سے لے کر غسل کے طریقے تک کے متعلق سینکڑوں احادیث موجود ہیں. یہ جنسی تعلیم نہیں تو اور کیا ہے؟ لہٰذا یہ خود ساختہ ہچکچاہٹ ختم کیجئے اور جدید تقاضوں کے مطابق بچوں کی جنسی تعلیم کیلئے ٹھوس اقدامات کیجئے. ہمارا پولیس اور عدالتی نظام بھی ایسے جرائم کی روک تھام کیلئے وہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جو درحقیقت ہونا چاہیے.

پولیس اصلاحات کی ازحد ضرورت ہے کہ جس میں تفتیش کے طریقہ کار کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تاکہ ایسے مجرموں کے بچ نکلنے کی راہیں مسدود کی جا سکیں. سانحہ چونیاں کے مجرم گرفتار ہؤئے ایک سال ہو گیا. گزشتہ روز اسے چھ بار سزائے موت کی سزا سنائی گئی. گویا ایک ہائی پروفائل کیس کا فیصلہ آنے میں ایک سال لگا. ہمارے ہاں ایک عام انگریزی اصطلاح ہے جس کا مفہوم "انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار" ہے. تیز ترین انصاف کی فراہمی کیلئے عدالتی نظام میں بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :